معافی نہیں مگرتعلقات بحال

نیٹوسربراہ اجلاس میں شرکت، پاکستان اور اتحادی ممالک سب کے بہتر مفاد میں ہے: اکرم ذکی؛ سفارتکار معافی کا کوئی متبادل لفظ تراش سکتے ہیں: مارون وائن بام

ایسے وقت میں جب افغانستان میں موجود نیٹو فورسز کے لیے پاکستان کے راستے سپلائیزکسی بھی لمحے بحال ہونے کی اطلاعات مل رہی ہیں اور پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نیٹو کے سربراہ اجلاس میں شرکت کےلیے شکاگو روانہ ہو چکے ہیں، یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی قیادت نے جو پوزیشن لی ہے اگر وہ درست ہے اور ملک کے مفاد میں ہے تو پھر وہ پوزیشن یقینا ً غلط تھی جو اس نے سلالہ چیک پوسٹ کے بعد لی تھی۔ بعض کے بقول، یہ ’’پرانی تنخواہ‘‘ پر کام کرنے کے مترادف ہے۔

دوسری طرف، یہ موقف رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں جو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی حکمت عملی کو دانشمندانہ سمجھتے ہیں، کہ اُن کے خیال میں امریکہ نے اگرچہ سلالہ چیک پوسٹ پرحملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پرمعافی تو نہیں مانگی، لیکن اسے یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کی بھی اپنی حدودوقیود ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ آپ کی ہر بات میں ، ہر قدم پرآپ کے ساتھ ہو۔

اس پس منظر میں’ وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’اِن دا نیوز‘ میں پاکستان اور امریکہ کےمبصرین سے سوالات اٹھائے گئے کہ آیا واشنگٹن اور اسلام آباد اپنے شراکت داری اور دوطرفہ تعلقات کے پرانے ڈگر پر آ چکے ہیں، سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کے بعد دونوں فریق آگے بڑھنے کو تیار ہیں، اور اس معافی کا کیا ہوگا جس کا مطالبہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے کیا ہے اور پوری قوم کوامید دلا دی ہے۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ صدرآصف علی زرداری کے پاس نیٹو سربراہ اجلاس میں کہنے کو کیا کچھ ہے؟

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، مڈل ایسٹ انسٹیٹوٹ کے سکالر ان ریزیڈنس، مارون وائن بام کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے تعلقات واپس ٹریک پرآچکے ہیں، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا یہ وہی ٹریک ہے جس پر وہ سلالہ حملے سے پہلے کھڑے تھے۔ اُن کے بقول، اِس ’’پگڈنڈی‘‘ پر مہینوں کے تعطل کے آثار ضرور باقی رہیں گے۔

نیٹو اجلاس میں پاکستان کی شرکت کے بارے میں وائن بام کہتے ہیں کہ نیٹو کے لیے اس کی بے حد اہمیت ہے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس کے تعاون کے (کسی بھی سطح کے) بغیر نیٹو اجلاس میں طے پانے والے مستقبل کے منصوبوں کو عملی شکل دی جا سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں سیاسی حالات پاکستان سے معافی کی اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ، یہاں صدر براک اوباما کو پہلے ہی یکے بعد دیگرے دو معافیاں مانگنے پر اپوزیشن کی جماعت ری پبلکن پارٹی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ البتہ، ان کے خیال میں سفارتکارکوئی ایسا لفظ تراش سکتے ہیں جس سے پاکستان والوں کی بھی تشفی ہو جائے، کیونکہ اُن کی پارلیمنٹ معافی پر مصر ہے۔

اکرم ذکی، خارجہ امور کے پاکستان کے سابق سیکریٹری جنرل ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اتحادی ممالک کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاوٴ معمول کی بات ہوا کرتی ہے۔ اور اگر کسی ایک سے غلطی ہو جائے تو ضروری نہیں کہ وہ تعلقات کے خاتمے پر ہی منتج ہو۔ اُن کے بقول، نقصانات کا ازالہ ہوا کرتا ہے اور یہ انٹرنیشنل پریکٹس ہے۔ اُن کا اشارہ سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کی جانب تھا۔

اِسی طرح، اُن کے بقول، سابق صدر مشرف کے دور میں نیٹو کو بلا معاوضہ ٹرک گزارنے کی اجازت تھی اور آج پاکستان کی حکومت نے یہ سہولت واپس لے لی ہے ۔ سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ فیس کی صورت میں کرنا پڑے گا۔

اکرم ذکی کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کی نیٹو اجلاس میں شرکت نہ صرف اتحادیوں کے لیے بلکہ خود پاکستان کے لیے مفید ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بون کانفرنس اگرفائدہ مند نہیں رہی تو پاکستان کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ان کے الفاظ میں ’’ یہ ضروری نہیں کہ پاکستان کی شرکت سے نیٹو کانفرنس کامیاب ہو جائے گی، مگر یہ ضرور ہے کہ پاکستان کی عدم شرکت سے یہ کامیاب نہ ہوتی‘‘۔

پیپلز پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کی شرکت ملک کے مفاد میں ہے۔ اُن کے بقول، اگر امریکہ نے ابھی تک معافی نہیں مانگی تو پاکستان نےبھی حتمی طور پر نیٹو سپلائز کی بحالی کا فیصلہ نہیں کیا۔

مارون وائن بام نے اسرائیل میں امریکہ کے سفیر کے اس بیان پر بھی تبصرہ کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن ایران پر حملے کے لیےتیارہے۔ امریکی سکالر کے مطابق امریکہ کا موقف رہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری پروگرام سے روکنے کے لیے فوجی کارروائی سمیت بہت سے آپشن رکھتا ہے۔ لیکن ، لگتا ہے کہ سفیر یہ سوچتے ہوئے کہ وہ صرف اسرائیل کی آڈینس سے مخاطب ہیں، تھوڑا آگے چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کوشش کرے گا کہ وہ ایران کے خلاف براہ راست تصادم سے حتی الوسع گریز کرے، کیونکہ اس سے پوری دنیا سے بالعموم اور مسلم دنیا سے بالخصوص ، سخت ردعمل آئے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ انتہائی صورت میں اگر ایران پر کوئی حملہ ہو بھی جاتا ہے، تو، اُن کے بقول، تہران امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔ وہ خلیجی ممالک میں امریکی ٹھکانوں کو ہدف بنائے گا اور نہ ہی اسرائیل پر حملہ کرے گا۔

مارون وائن بام کا تجزیہ ہے کہ ایران دنیا سے سیاسی حمایت کی صورت میں فائدہ لینا چاہے گا، اور اُس کے حلیف لبنان اور غزہ کی پٹی سے جوابی کارروائی کریں گے۔