اکیڈیمک پلیجرزم: کیا پاکستان کے اکثر استاد مواد چوری کرتے ہیں؟

فائل

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے 2002 میں قیام کے بعد سے پاکستان میں جامعات کی تعداد 74 سے بڑھ کر 174 تک پہنچ چکی ہے اور ان جامعات میں طلبا کی تعداد پونے تین لاکھ سے بڑھ کر 2015 تک تقریباً تیرہ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔

ایچ ای سی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق سال 2010 سے 2014 کے پانچ برس کے عرصے کے دوران ملک میں 5536 افراد نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جب کہ 1947 سے لے کر 2002 تک صرف 3281 افراد نے پی ایچ ڈی کی تھی۔

ملک میں اس قدر زیادہ پی ایچ ڈیز پیدا کرنے کے باوجود اس برس کے ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے مطابق دنیا کی ٹاپ پانچ سو جامعات میں پاکستان کی صرف ایک جامعہ ، قائداعظم یونیورسٹی کا نام آتا ہے۔

ماہرین اس کی وجہ ملک میں ’اکیڈیمک پلیجرزم‘، یعنی تحقیقی مقالوں میں سرقے یعنی دوسروں کے مواد کو چوری کرنے کی روایت بتاتے ہیں۔

معروف سکالر پرویز ہودبھائے کہتے ہیں کہ ''پاکستان کے اکثر استاد سرقہ کرتے ہیں اور اسے کوئی برا بھی نہیں سمجھتا''۔

یہ ’اکیڈیمک پلیجرزم‘ کس قدر وسیع پیمانے پر ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے تعلیم کی رپورٹنگ سے منسلک صحافی، عمار رشید نے بتایا کہ 'ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، کے اپنے افسر کا تحقیقی مقالہ ''سرقہ تھا''۔ بقول اُن کے، ''آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیمی حلقوں میں سرقہ کتنا عام ہے''۔

عمار رشید نے کہا کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو سرکاری اور نجی جامعات میں پڑھا رہے ہیں جب کہ ان کے تحقیقی مقالے سرقہ ہیں۔

ان کے الفاظ میں، ’’پڑھانے والے ہی اگر سرقہ کریں گے تو باقی کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘

اس قدر وسیع پیمانے پر سرقے کی روایت کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈاکٹر اے ایچ نئیر نے کہا کہ ایچ ای سی کے قیام کے بعد تحقیقی مقالے لکھنے کو فروغ دینے کے لئے بہت سا معاوضہ اور ترغیبات رکھی گئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’اس میں بے ایمانی آڑے آگئی، اب جب کہ انٹرنیٹ کا دور ہے تو سرقہ بہت آسان ہوگیا ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ اسے روکنے کے لئے 'سافٹ ویئر' موجود ہے مگر اس کے باوجود علمی حلقوں میں نقل کی بہت زیادہ روایت موجود ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک سال میں لوگ دس دس پرچے چھاپتے ہیں۔ کسی کے پاس اتنی تحقیق اور اتنا مواد نہیں ہوتا کہ وہ پرچے پہ پرچہ چھاپتا چلا جائے۔

اُن کے بقول، ’’مگر چونکہ اتنی دوڑ لگی ہوئی ہے، تو لوگ نقل کرتے ہیں یا ایسی باتیں شامل کرتے ہیں جن کی کوئی تصدیق نہیں کر سکتا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سائنس کی دنیا میں پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں ہے؛ ’’یہاں پیپرز کی بھرمار ہے مگر ان کا کوئی حوالہ نہیں دیتا۔ حوالہ وہی دیتے ہیں جو واقعی لکھتے ہیں۔‘‘

اس صورت حال کو کیسے بہتر کیا جائے اس پر ڈاکٹر نئیر نے کہا کہ جو ایچ ای سی نے مراعات رکھی ہیں انہیں ختم کرنا پڑے گا۔ '’آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ اکیڈیمکس میں یہ باتیں نہیں ہوتیں کہ آپ پانچ پرچے لکھیں گے تو آپ کو اتنے پیسے ملیں گے، آپ پی ایچ ڈی کروائیں گے تو آپ کو اتنے ’انکری منٹس‘۔۔ جنہیں ہم بدعت کہتے ہیں، ایسی بدعتیں بہت سی نکل آئی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پہلے قدم پر ان تمام چیزوں کو ختم کرنا پڑے گا۔

’’دنیا میں جہاں اعلیٰ درجے کی تحقیق ہوتی ہے وہاں ایسی لالچ نہیں دی جاتی''۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپ میں ایسی روایت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین میں ایسی ترغیبات دی جاتی ہیں، مگر اس پر بڑی کڑی نظر بھی رکھی جاتی ہے۔ ’’آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہوگا اگر اچھے بین الاقوامی جرائد میں تحقیق چھپے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’صرف تعداد کی وجہ سے پیسے دینے سے کوئی بڑی حماقت نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے بھی اسی امر سے اتفاق کیا کہ جو لالچیں دی گئی ہیں انہیں ختم کر دینا چاہئے۔ ’’ہمارے پاس اب ان لالچوں کے دینے کا سولہ، سترہ سال کا تجربہ ہے، ہمیں اس سے سیکھنا چاہئے۔‘‘

پرویز ہودبھائے نے کہا کہ اب پروفیسروں کا ایک مافیا بن چکا ہے جو اس نظام کو بدلنے نہیں دیں گے۔

اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے عمار رشید کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی کو مکمل ’اوور ہال‘ کی ضرورت ہے۔ اسے بیوروکریسی سے چھین کر اکیڈیمیا کے حوالے دینا چاہئے؛ جب کہ اے ایچ نئیر کا موقف تھا کہ ایچ ای سی کی بڑی پوزیشنز میں اساتذہ حضرات ہی ہیں۔ ’’المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اکیڈیمیا کو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ انہیں انتظامی پوزیشن مل جائے۔ اور انہیں مکمل آزادی حاصل ہے۔‘‘

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جامعات کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ''اکیڈیمک کرپشن'' ہے۔ ’’اکیڈیمیا کے اندر جو کرپشن رچ بس گئی ہے وہ اتنی ہی ہے جتنی ہمارے سیاستدانوں میں ہے، اس سے کسی طور کم نہیں ہے۔ شاید زیادہ ہی ہے۔‘‘

پاکستان میں سرقہ کی روایت اور علم کے زوال پر بات کرتے ہوئے عمار رشید نے کہا کہ ہمارے یونیورسٹی کیمپس پولیسنگ سائٹس بن گئے ہیں۔ ہم جب تک ایسے نہیں دیکھتے کہ یہ علم پیدا کرنے کی جگہیں ہیں، تب تک یہاں تبدیلی نہیں آئے گی۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائے کا کہنا تھا کہ ’’جب آپ کہیں گے کہ ان حدود سے باہر سوچنا ہی نہیں ہے، ان حدود سے باہر پڑھنا ہی نہیں ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یہ بوجھ ہمارے کندھوں سے اترتا نہیں ہے، تب تک ہم پائے کی یونیورسٹیاں پیدا ہی نہیں کر سکتے۔‘‘