سیلاب کے بعد تعمیرِ نو: پاکستان کو جنیوا میں شیڈول ڈونرز کانفرنس سے توقعات

پاکستان میں رواں سال آنے والے شدید ترین سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے لیے عالمی برادری سے فنڈز کے حصول کے لیے نو جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں عالمی ڈونر کانفرنس منعقد ہو گی۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہ اس کانفرنس کی میزبانی پاکستان اور اقوامِ متحدہ مشترکہ طور پر کریں گے۔

اُن کے بقول کانفرنس میں وزیرِِ اعظم شہباز شریف اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور فرانس کے صدر ایمانوئیل میخواں بھی شرکت کریں گے۔ پاکستان سیلاب سے متاثر علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کا ایک مجوزہ منصوبہ بھی کانفرنس کے شرکا کے سامنے پیش کرے گا۔

احسن اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس بات کی توقع کرتا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور تعمیرِ نو میں پاکستان کی معاونت کرے گی جب کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بننے والے اسباب کا پاکستان ذمے دار نہیں ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ عالمی اداروں بشمول ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ سے مل کر پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگ بھگ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

اُنہوں نے کہا ان میں سے تقریباً 16 ارب ڈالر تعمیرِ نو کے لیے درکار ہیں اور ان میں سے نصف پاکستان اپنے وسائل سے پورا کرے گا اور توقع ہے کہ باقی آٹھ ارب ڈالرز عالمی برادری پاکستان کو فراہم کرے گی۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی کرونا وائرس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہوا ہے۔

لیکن اس کےباوجود احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے وسائل سے بھی سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں بحالی کے کام پر توجہ دے رہا ہےلیکن ان کےبقول پاکستان آئندہ تین سال کے دوران عالمی برادری سے بھی آٹھ ارب ڈالر معاونت کی توقع کرتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کھڑے پانی سے گندم کے بحران کا خدشہ


اُنہوں نے کہا کہ عالمی امداد ی اداروں کے علاوہ پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے رعایتی فنانسنگ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ تعمیر ِنو کا کام کیا جاسکے۔

'فوری فنڈز حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا'

یادر ہے کہ روں سال مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے پاکستان میں آنے والے تاریخ کے شدید ترین سیلا ب کی وجہ سے پاکستان میں لگ بھگ تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ بنیادی ڈھانچے، صحت، و تعلیم کے مراکز سمیت زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے ہنگامی ضروریات کے لیے لگ بھگ 81 کروڑ 60 کروڑ ڈالر کی اپیل کی تھی جس میں صرف 23 فی صد مل سکی ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر علی توقیر شیخ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دنیا کو بھی اس بات کا حساس ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان شدید طور پر متاثر ہوا اور عالمی برادری پاکستان کی مدد بھی کرنا چاہتی ہے۔

لیکن توقیر شیخ کہتے ہیں کہ اس وقت یوکرین کی جنگ کے بعد مالی وسائل کے حصول کے لیے دنیا میں مسابقت جاری ہے اس لیے پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے والےبنیادی ڈھانچے کی تعمیر ِنو کے لیے فوری طور پر درکار مالی معاونت حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

وسری جانب اقتصادی امور کے ماہر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اس دقت دنیا میں سرمائے کی کمی ہے اور کئی ملکوں کے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں معیشت کی نمو کی رفتار کم ہورہی ہے۔

اس لیے ان کےبقول پاکستان کے لیے عالمی برادری سے معاونت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سرد جنگ اور اس کےبعد افغانستان کی وجہ سے دنیا اور مغربی ممالک پاکستان کی مدد کرتے تھے، لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے۔

دوسری جانب فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کی ساکھ کا بھی سوال ہے اور اس صوتِ حال میں شاید عالمی امدادی ادارے حکومت کو براہ راست معاونت فراہم نہ کریں۔

لیکن ان کےبقول اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ وہ عالمی ادارے ورلڈ بینک ، اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے ' یو این ڈی پی' کے ذریعے خرچ کرنےکوترجیح دیں ۔


تاہم پاکستانی قیادت عالمی برادری کو متعدد بار باور کرا چکی ہے کہ سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے ملنے والی امداد کو مکمل شفافیت اور ذمے داری سے خرچ کیا جائے گا۔

احسن اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے لیے ایک طویل المدتی منصوبہ بھی وضع کیا ہے ۔

ان کےبقول پاکستان بین الاقوامی ادارروں کی معاونت سے پانی کے نظام اور بنیادی ڈھانچے کو مزید مضبو ط کرے گا جس کے لیے الگ سے پاکستان کو ابتدائی طور پر 13 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی آفات کا مسلسل سامنا کررہے ہیں اور اس صورتِ حال میں پاکستان کو طویل مدت کے لیے اپنے ترقیاتی منصوبوں کی پائیدار بنیادوں پر تعمیرِ نو کرنی ہو گی ۔