پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اسرائیل میں غیر قانونی طور پر داخل ہو کر کئی برس تک کام کرنے والے پانچ پاکستانی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان ملزمان کے خلاف امیگریشن آرڈیننس اور پاسپورٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جا سکتا جب کہ پاسپورٹ کے ایک صفحے پر یہ درج ہے کہ 'یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ملکوں کے لیے کارآمد ہے۔'
حکام کو یہ انکشاف اس وقت ہوا جب اسرائیل سے کچھ رقم ویسٹرن یونین کے ذریعے میرپور خاص میں واقع پاکستان پوسٹ آفس میں منتقل کی گئی ۔
جب اس بارے میں مزید تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ رقم بھیجنے والا شخص محمد اسلم ہے جو ملازمت کی غرض سے اسرائیل میں مقیم تھا اور اس نے کچھ رقم اپنے گھر والوں کو منتقل کی ہے۔ اسلم 2013 سے 2022 تک کے عرصے میں اسرائیل میں ملازمت کرتا رہا اور اس دوران وہ پاکستان بھی آتا جاتا رہا۔
دوران تفتیش اسلم نے بتایا کہ ملازمت کے حصول کے دوران اس کی ملاقات اسرائیلی ایجنٹ اسحاق متات سے ہوئی جس نے اس سے اسرائیل میں کام کرنے کے عوض تین لاکھ روپے طلب کیے تھے۔
رقم کی ادائیگی کے بعد پاکستانی پاسپورٹ کا حامل محمد اسلم اکتوبر 2013 میں کراچی ایئرپورٹ سے شنجین ویزہ پر ترکیہ کے شہر استنبول پہنچا۔ اس کے بعد وہ اسی اسرائیلی کے ساتھ ترکیہ سے اردن روانہ ہوا اور وہاں سے اسرائیلی شہر تل ابیب گیا۔ جہاں وہ چار سال تک کاریں دھونے کے کام سے منسلک رہا۔ واپسی پر بھی اس نے اردن سے دبئی اور وہاں سے کراچی کا راستہ اختیار کیا۔
سن 2017 میں وطن واپس آنے کے بعد اس نے ایک بار پھر اسرائیلی ایجنٹ کو سات لاکھ روپے ادا کیے۔ اس دفعہ اسلم کو کراچی سے دبئی، دبئی سے نیروبی اور پھر وہاں سے اردن ائیرپورٹ پہنچایا گیا۔ جہاں سے وہ تل ابیب میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ اسلم دوسری بار وہاں سے گزشتہ سال 29 اپریل کو کراچی واپس پہنچا تھا۔
ایف آئی اے کے تفتیشی آفیسر محمد یوسف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم نے ملزمان کی گرفتاری کا پلان تیار کررکھا تھا اور اس سلسلے میں ان کے کچھ محلے دار بھی ہمارے ساتھ رابطے میں تھے۔
اُن کے بقول جونہی یہ ملزمان مختلف تاریخوں پر پاکستان کے شہر میرپور خاص پہنچے اور اپنے گھر آئے ، ہماری ٹیموں نے انہیں حراست میں لے لیا اور ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔
تفتیشی آفیسر نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ملزمان اسرائیل کے شہر تل ابیب میں رہتے تھے جہاں وہ بطور ہیلپر اور کار واشر ملازمت کرتے رہے۔
ملزمان نے تفتیشی آفیسر کو بتایا کہ ان کے ایجنٹ نے انہیں کہہ رکھا تھا کہ کسی کو اپنی پاکستانی شناخت کے بارے میں نہیں بتانا اور کام کے علاؤہ کسی جگہ نہیں جانا کیوں کہ اگر پکڑے گئے تو مسئلہ بن جائے گا۔
تفتیشی آفیسر نے بتایا کہ ملزمان کے پاسپورٹس اور دستاویزات چیک کیے گئے ہیں جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے پاسپورٹس پر اسرائیل کا ویزہ نہیں لگا۔
کچھ اسی طرح کی کہانی میرپورخاص ہی کے رہائشی محمد انور کی بھی تھی جو 2015 میں غیر قانونی طور پر اسرائیل پہنچا اور وہاں وہ بھی کاریں دھونے کا کام کرتا رہا جس کے چار سال بعد وطن واپس پہنچا۔ ایک اور محمد ذیشان کو بھی اسی اسرائیلی ایجنٹ نے تل ابیب پہنچایا تھا۔
ایک اور ایف آئی آر میں ماں، باپ اور بیٹا کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق کامران صدیقی اپنی والدہ ستارہ پروین اور والد ماجد صدیقی کے ہمراہ 2011 میں 10 لاکھ روپے دے کر کراچی سے شینجن ویزہ پر زیورخ گئے وہاں سے اردن روانہ ہوئے اور پھر تل ابیب میں داخل ہوئے تھے۔
کچھ عرصے کاریں دھونے اور سوئیپر کے طور پر ملازمت کرنے کے بعد کامران کے والدین پاکستان واپس آگئے لیکن کامران مزید کچھ عرصہ وہاں غیر قانونی طور پر مقیم رہا جس کے بعد 2013 میں وہ بھی واپس پاکستان واپس آ گیا۔ کامران 2013 میں دوبارہ اسرائیل گیا اور پھر 2017 میں واپس وطن لوٹا۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان شہریوں نے اسرائیل میں ملازمت اختیار کرنے کی غرض سے یہ جانتے بوجھتے ہوئے سفر کیا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانا ممنوع ہے کیوں کہ پاکستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان شہریوں کا پاکستانی پاسپورٹ پر داخلہ ، وہاں قیام اور ملازمت اختیار کرنے کا یہ عمل پاکستان امیگریشن آرڈیننس 1979، پاکستان پاسپورٹ ایکٹ 1974 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت غیر قانونی اور قابلِ سزا عمل ہے۔
حکام کا کہنا ہے تمام ملزمان کا سراغ ان کی جانب سے اپنے اہلِ خانہ کو رقم بھیجنے سے ہوا اور انہیں تحقیقات مکمل ہونے پر پاکستان ہی میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم خاتون کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اب انہیں اس ایجنٹ کی تلاش ہے جنہوں نے ان شہریوں کو اسرائیل میں داخلے میں مدد فراہم کی۔
ہر سال پاکستانیوں کیا ایک بڑی تعداد اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر وطن چھوڑ کر نہ صرف یورپ بلکہ مشرق وسطٰیٰ اور دیگر خطوں کا بھی رخ کرتی ہے اور اس دوران ایسے کئی حادثات بھی ہوچکے ہیں جس میں درجنوں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ چند ہفتے قبل یونان کے ساحل کے قریب پیش آیا تھا جس میں 100 سے زائد پاکستانی کشتی الٹنے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ ملک سے انسانی اسمگلنگ اور لوگوں کو غیر قانونی طور پر بھیجنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے تاکہ اس عمل کو روکا جاسکے۔