پاکستان کا نام ان تین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جہاں توہین مذہب کے جرم میں موت تک کی سزا دی جاتی ہے۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ان 71 ممالک کی فہرست میں جہاں توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں، پاکستان، ایران اور یمن سخت سزائیں دینے میں سر فہرست ہیں۔
توہین مذہب کے قوانین کی موجودگی کے باوجود سب سے کم سزائیں آئرلینڈ اور سپین میں دی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یورپ کے کئی ملکوں میں اگرچہ توہین مذہب کے قانون موجود ہیں لیکن ان کا إطلاق شاذ ونادر ہی کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ توہین مذہب کا قانون رکھنے والے86 فی صد ملکوں اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا قید ہے۔
رپورٹ میں پاکستان اور ایران کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان دونوں ملکوں میں پیغمبر اسلام کی بے حرمتی پر عدالتیں عموماً موت کی سزا سنا دیتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان ملکوں میں یہ شکایات عام ہے کہ اقلیتوں کو دبانے اور دیگر مفادات حاصل کرنے کے لیے بااثر لوگ اور عہدے دار توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کرتے ہیں۔
ایک پاکستانی عدالت نے ایک شخص کو فیس بک پر مبینہ طور پر توہین مذہب سے متعلق مواد شائع کرنے پر موت کی سزا سنائی۔ یہ میڈیا کے حوالے سے دی جانے والی پہلی ایسی سزا ہے۔
توہین مذہب قانون کے قابل اعتراض استعمال کی ایک حالیہ مثال انڈونیشیا کے شہر جکارتا کے عیسائی گورنر کی ہے جسے مئی میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس سزا کو غیر منصفانہ اور سیاسی دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کے سلسلے میں اسلامی ملکوں میں سب سے اچھا ریکارڈ سعودی عرب کا ہے۔ وہاں اس جرم کے لیے سزا کا تعین نہیں کیا گیا ۔اس کا فیصلہ پر اسیکیوٹر اور جج جرم کو نوعیت کے مطابق کرتے ہیں۔ جہاں قانون حد نہیں لگاتا وہاں جج کے پاس آزادی سے فیصلہ کرنے کی کافی گنجائش موجود ہوتی ہے۔