اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئٹر کو توہین رسالت کا مواد ہٹانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر آئندہ سماعت تک مواد نہ ہٹایا تو پاکستان میں ٹوئٹر بلاک کر دیں گے‘‘۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے معاملے پر عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔ عدالت نے سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر کو توہین رسالت مواد ہٹانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے اور کہا ہے کہ اگر آئندہ سماعت تک مواد نہ ہٹایا تو پاکستان میں ٹوئٹر بلاک کردیں گے۔
عدالت نے کہا ہے کہ2 مئی کو فیصلہ سنا دیا گیا جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے افسر کو عدالتی معاونت پر مقرر کر دے، ٹوئٹرحکام کو عدالتی حکم کی روشنی میں خط لکھ دیں۔
عدالت نے کہا کہ ’’ٹوئٹر پر توہین رسالت سے متعلق مواد ابھی تک کیوں موجود ہے۔ ابھی حکم دے کر ٹوئٹر کو کالعدم قرار دے سکتا ہوں۔ سیاسی لیڈر روئیں گے کہ ہماری سیاسی مہم متاثر ہوگی۔ حکام آج ہی ٹوئٹرحکام کو خط لکھ دیں‘‘۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔ توہین رسالت کے درخواست گزار سلمان شاہد کو7 ماہ تک اغو کیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ ’’توہین رسالت سے زیادہ فوج کے چند افسران کے بارے میں بات کو زیادہ برا سمجھا جاتا ہے‘‘۔
ایک اور کیس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ ’’چند کالی بھیڑوں نے فوج کو داغدار بنا دیا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’بحیثیت ادارہ پاکستان، فوج کی شان ہے۔ مگر چند کالی بھیڑوں نے فوج کو داغدار بنایا ہے۔ ان بھیڑوں کے حوالے سے شاید آرمی چیف کو بھی معلوم نہیں‘‘۔
انہوں نے آرمی چیف سے ایک بار پھر نوٹس لینے کی اپیل کی۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انکے موکل کو 7ماہ تک اغوء کیے رکھا گیا اور ذہنی اذیت پہنچائی گئی۔
عدالت نے سلمان شاہد کو رٹ فائل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو اُنھیں مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
گزشتہ سال سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ توہین آمیز مواد روکنے اور کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم 15 تفتیشی افسران اور 12 ہزار شکایات ہیں جبکہ مناسب سہولیات کے فقدان کے باوجود کام جاری ہے۔
مبینہ گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمات کے اندراج، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور مشتبہ افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا تھا، جبکہ سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
عدالت نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایات بھی دی تھیں کہ وہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں توہین مذہب اور ’پورنوگرافی‘ سے متعلق شقیں شامل کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقننہ سے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کی بھی سفارش کی تھی، تاکہ گستاخی کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی گستاخی کرنے والے کے برابر سزا دی جاسکے۔