پاکستان: 22 فی صد شرحِ سود سے تاجر ناخوش، مہنگائی میں اضافے کا امکان بدستور موجود

فائل فوٹو

  • تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مسلسل پانچواں سال ہے جب ملک میں اوسط مہنگائی کی شرح لگ بھگ 18 فی صد سے بھی بُلند رہی ہے۔
  • شرح سود کا تعین کرنے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق اب بھی مہنگائی میں اضافے کی توقع ہے۔
  • معاشی تجزیہ کاروں کے خیال میں شرح سود برقرار رکھنے کا تعلق ملک کو درپیش بیرونی ادائیگیوں کے بحران سے بھی ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود 22 فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ نو ماہ سے ملک میں شرح سود 22 فی صد ہی ہے جب کہ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس قدر بلند شرح سود کے ساتھ کاروبار بڑھانا تو دور کی بات، چلانا بھی مشکل ہے۔

پاکستان میں شرح سود بلند رکھنے کے باوجود مہنگائی میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی جب کہ تاجروں کا کہنا ہے کہ شرح سود بڑھا کر مہنگائی قابو میں رکھنا ناکام حکمتِ عملی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مسلسل پانچواں سال ہے جب ملک میں اوسط مہنگائی کی شرح لگ بھگ 18 فی صد سے بھی بُلند رہی ہے۔ اس دوران گزشتہ سال مئی کے مہینے میں یہ شرح 37.97 فی صد کی بلند ترین سطح پر بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔

اسٹیٹ بینک نے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے کم از کم چھ ارب ڈالر کے نئے قرض کے لیے مذاکرات شروع کرنے جا رہی ہے۔

اس سے قبل پاکستان کو اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت رواں ماہ کے اختتام تک 1.1 ارب ڈالر کی حتمی قسط جاری ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کا دورۂ کرنے والا آئی ایم ایف مشن پیر کو موجودہ پروگرام کے جائزے کے لیے بات چیت مکمل کر چکا ہے۔

SEE ALSO: آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے لیے مذاکرات، کیا پاکستانی عوام کو ریلیف مل سکے گا؟

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت بلند شرح سود کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

ان کے بقول، 22 فی صد شرح سود نے کاروباروں کی آپریشنل صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، جس سے مقامی کاروباری برادری کے لیے قرضے لینے کی کاسٹ انتہائی مہنگی ہو گئی ہے۔

شرح سود کا تعین کرنے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق اگرچہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے لیکن فروری میں تیزی سے کمی کے باوجود مہنگائی کی سطح اب بھی بلند ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اب بھی مہنگائی میں اضافے کی توقع ہے۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردّ و بدل براہِ راست اور بالواسطہ طور پر مہنگائی پر اثرانداز ہو رہا ہے اور آئندہ چند ماہ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

'قیمتوں میں کمی جاری رہی تو شرح سود بھی کم ہو سکتی ہے'

کئی معاشی تجزیہ کاروں کے خیال میں شرح سود برقرار رکھنے کا تعلق ملک کو درپیش بیرونی ادائیگیوں کے بحران سے بھی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس سے روپے کی قدر پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات پر عمل پیرا ہونے سے پاکستانی معیشت کے اندر بنیادی انفراسٹرکچر مسائل کو کامیابی سے حل نہیں کیا جا سکا۔ جس کی وجہ سے میکرو اکنامک صورتِ حال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

شہباز حکومت سے لوگوں کی توقعات؛ 'پہلے مہنگائی قابو نہیں کرسکے شاید اب کرلیں'

دوسری جانب مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کی نسبت رواں برس مہنگائی میں خاصی حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں مہنگائی کی شرح 28.3 فی صد سے کم ہو کر فروری کے دوران 23.1 فی صد رہی۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے منظرنامے میں بڑی حد تک بہتری خوراک کی بہتر رسد، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اعتدال کے مشترکہ اثرات کی وجہ سے ہے۔

مقامی بروکریج ہاؤس میں ریسرچ ہیڈ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر قیمتوں میں کمی کا حالیہ سلسلہ جاری رہا، مہنگائی کی شرح اور موجودہ شرح سود نیچے آگئی تو مرکزی بینک 29 اپریل کو اگلی میٹنگ سے شرح سود میں کمی کا سلسلہ شروع کر دے گا۔

رواں مالی سال میں معاشی سرگرمی میں معتدل بحالی سے توقع کی جارہی ہے کہ اس سال کے اختتام پر ملک میں حقیقی جی ڈی پی یعنی قومی معاشی ترقی کی رفتار دو سے تین فی صد کے درمیان رہے گی۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو رواں مالی سال کُل بیرونی قرضوں 24.3 ارب ڈالر ادا کرنا تھے جس میں سے اب بھی 10.8 ارب ڈالر کی رقم مزید واپس کرنا ہے۔

حکومت کو توقع ہے کہ وہ چھ ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کروا لے گی اور اس طرح بقیہ مالی سالوں میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم واجب الادا رہ جائے گی۔ اس طرح پاکستان کو سُود کے ساتھ رواں مالی سال کے اختتام تک لگ بھگ 4.8 ارب ڈالرز مزید واپس کرنا ہوں گے۔