پاکستان نے یمن سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر کیے جانے والے میزائل حملے کی مذمت کی ہے۔
یہ میزائل یمن سے حوثی باغیوں نے منگل کو داغا تھا جسے سعودی فورسز نے مار گرایا تھا۔
لیکن تاحال اس میزائل حملے میں ہونے والے جانی یا مالی نقصان کی مصدقہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دو ماہ سے بھی کم وقت میں یمن سے سعودی عرب پر میزائل فائر کیے جانے کا یہ تیسرا واقعہ ہے جس کی پاکستان سخت مذمت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر میزائل حملے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے جو کہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔
وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان یمن میں جاری تنازع کے فوری سیاسی حل پر یقین رکھتا ہے کیوں کہ علاقائی امن و استحکام کا واحد حل اسی سے ممکن ہے۔
بیان میں پاکستان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اس عزم کو دہرایا گیا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت یا ’حرمین‘ کو اگر کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان سعودی حکومت اور عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔
پاکستان کے سابق سفیر عزیز احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ کشیدگی باعثِ تشویش ہے اور اُن کے بقول اس کے لیے مسلم ممالک کو مل کر کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
’’میرا خیال ہے اس میں سب سے بہتر یہ ہو گا کہ مسلمان ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ ایک امن مشن بنائے اور اس جھگڑے کو ختم کرنے میں کردار ادا کرے۔۔۔ بہتر یہی ہے کہ دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ کریں۔‘‘
عزیز احمد خان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو فوری طور پر اس پر توجہ دینی چاہیے۔
سعودی حکام کے مطابق منگل کو کیے جانے والے حملے کا ہدف دارالحکومت ریاض میں واقع ایک شاہی محل تھا لیکن سعودی عرب کے میزائل دفاعی نظام نے میزائل کو ہدف کو نشانہ بنانے سے قبل دارالحکومت ریاض کے جنوب میں مار گرایا۔
سعودی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس میزائل حملے میں کسی طرح کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل چار دسمبر کو حوثی باغیوں نے ایک میزائل حملے میں ریاض کے الخالد بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ہدف بنایا تھا لیکن اس حملے کے بارے میں بھی سعودی حکام کا کہنا تھا کہ داغے گئے میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی مار گرایا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی کہہ چکی ہیں کہ یمن سے ریاض کی جانب داغے گئے میزائل ایران کی طرف سے حوثی باغیوں کو فراہم کیے گئے ہیں اور اُن کے بقول اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
پاکستان سعودی عرب کا قریب اتحادی ہے اور رواں ماہ ہی سعودی عرب کے نائب وزیرِ دفاع محمد بن عبداللہ العیش نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے وزیر دفاغ خرم دستگیر اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
اس دورے میں سعودی عرب کے نائب وزیرِ دفاع نے کہا تھا کہ اُن کا ملک اپنی مسلح افواج کی تربیت کے لیے پاکستان سے تعاون چاہتا ہے۔
پاکستان، سعودی عرب کی قیادت میں قائم مسلم ممالک کے عسکری اتحاد ’اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن‘ کا بھی حصہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف قائم مسلم ملکوں کے مذکورہ فوجی اتحاد کا کمانڈر سعودی عرب نے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو مقرر کر رکھا ہے۔