پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے پیشگی شرائط کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مشیران برائے قومی سلامتی کے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان 23 اور 24 اگست کو نئی دہلی میں ملاقات ہونا تھی۔ لیکن، بھارت نے اس بات چیت سے قبل اپنے زیر انتظام کشمیر کے رہنماؤں کو نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ملاقات کے لیے مدعو کرنے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے، تجویز دی تھی کہ پاکستانی مشیر یہ ملاقات نہ کریں۔
تاہم، پاکستان نے یہ کہہ کر اس سے انکار کر دیا کہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقات ایک روایت رہی ہے اور وہ بھارت کی طرف سے پیشگی شرائط کی صورت میں مشیروں کی طے شدہ ملاقات میں شریک نہیں ہوگا۔
اس پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان متنازع کشمیر کے رہنماؤں سے ملاقات پر مُصر رہے گا تو دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ بات چیت نہیں ہوسکے گی۔
نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اوفا میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات میں دونوں ملکوں کے مشیروں کی ملاقات پر اتفاق کیا گیا اور اس مجوزہ ملاقات میں دہشت گردی سے جڑے معاملات پر بات چیت کے بعد ہی دیگر امور پر بات ہو سکتی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے بعد ہفتہ کو دیر گئے پاکستان نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتا ہے کہ بھارتی شرائط کے تناظر میں قومی مشیروں کی طے شدہ بات چیت سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔
دفترخارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ایک طرف بھارتی وزیر خارجہ تسلیم کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار امن تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، ساتھ ہی وہ یکطرفہ طور پر اسے صرف دو معاملات تک محدود کر رہی ہیں کہ دہشت گردی سے پاک ماحول اور لائن آف کنٹرول پر امن۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے کئی واقعات کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا جو بعد میں غلط ثابت ہوئے اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ بھارت ایسے ہی ایک دو واقعات، ان کے بقول، ’گھڑ کر اور لائن آف کنٹرول پر محاذ گرم رکھ کر مذاکرات کی بحالی کو غیر معینہ مدت کے لیے ٹال دے‘۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی دنوں ملکوں کے مابین جامع مذاکرات کا حصہ رہا ہے اور اس پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ لہذا، یہ مناسب نہیں کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ کرے کہ دہشت گردی پر بات چیت اور اس کے خاتمے کے بعد ہی باقی حل طلب معاملات پر بات ہوگی۔
دونوں ملکوں کے درمیان اس مجوزہ ملاقات کو پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ تعلقات میں کسی حد تک کمی کے لیے ایک کوشش قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن، ایک بار پھر دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے تعلقات میں تناؤ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا معمول پر ہونا بہت ضروری ہے اور دنوں ملکوں کو اپنے تنازعات حل کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے۔