پاکستانی حکام نے بلوچستان میں شمسی ایئربیس خالی کرنے کے لیے امریکہ کو 11 دسمبر تک کی مہلت دے رکھی ہے اوراطلاعات کے مطابق اس فوجی تنصیب پر موجود امریکی آلات و عہدے داروں کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
مقامی ذرائع اور میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ شمسی ائر بیس پر موجود امریکی شہریوں کو واپس لے جانے کےلیے امریکہ کے خصوصی طیارے اتوار کو پاکستان پہنچے اور انتہائی سخت حفاظتی انتظامات میں مسافروں کو ان پر منتقل کیا گیا۔
اس موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے اہلکار بھی فوجی تنصیب پر موجود تھے جب کہ اس کے آس پاس آباد شہریوں کو اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
ذرائع ابلاغ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ جو سامان اورآلات امریکی حکام اپنے ساتھ واپس نہیں لے جا رہے اُسے وہ نذر آتش کر رہے ہیں۔
شمی ائر بیس پراطلاعات کے مطابق 70 سے زائد امریکی فوجی اور سی آئی اے کے اہلکارتعینات تھے جواس تنصیب کو خالی کرکے اب واپس جارہے ہیں۔
کوئٹہ میں اتوار کو ایک نیوز کانفرنس کے بعد صوبائی سیکرٹری داخلہ نصیب اللہ سے شمسی ائربیس پر جاری سرگرمیوں کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو اُنھوں نے محض اتنا کہا کہ یہ غیر متعلقہ سوال ہے۔
متنازعہ شمسی ائربیس کوئٹہ سے 300 کلومیٹر جنوب مغرب میں ضلع واشک میں واقع ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوںٕ میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف میزائل حملوں میں مصروف بغیر پائلٹ کے ڈرون نامی طیارے اسی ہوائی اڈے سے پرواز کرتے رہے ہیں۔
اُدھر نیٹو کی سپلائی لائنز بند کرنے کے فیصلے کے بعد اتوار کو نویں روز بھی شمال مغربی طورخم اور جنوب مغربی چمن کی سرحد پر سینکڑوں ٹرک کھڑے ہیں جن پر نیٹو افواج کے لیے رسد کا سمان لادھا ہوا ہے۔ بلوچستان کے داخلہ سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ان ٹرکوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
حکومت پاکستان نے 26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے کی مذمت اور اس پر احتجاج کرتے ہوئے امریکہ سےشمسی ائربیس 15 دن میں خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید برآں افغانستان میں تعینات امریکی اوراتحادی افواج کو پاکستان کے راستے خوراک، ایندھن اور فوجی گاڑیاں لے جانے والے ٹرکوں کے قافلوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی جو تاحال برقرار ہے۔