اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر کیمرون منٹر نے پاکستان کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے عسکریت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک سے رابطے ہیں۔
سرکاری ’ریڈیو پاکستان‘ سے خصوصی گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ چند روز قبل کابل میں ہونے والا حملہ بھی حقانی نیٹ ورک کی ہی کارروائی تھی۔ ’’ایسے شواہد موجود ہیں جن سے حقانی نیٹ ورک اور حکومت پاکستان کے درمیان رابطوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یہ ہر صورت ختم ہونے چاہیئں۔‘‘
امریکی سفیر کا انٹرویو ہفتہ کو نشر کیا گیا، جب کہ پاکستانی عہدے داروں کی جانب سے ان الزامات پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
بارود سے لدے ایک ٹرک میں سوار عسکریت پسندوں نے منگل کی صبح کابل میں ایک زیر تعمیر عمارت پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں سے امریکی سفارت خانے اور نیٹو ہیڈکوارٹرز سمیت کئی اہم اہداف کو راکٹوں اور چھوٹے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا تھا۔
تقریباً 20 گھنٹے جاری رہنے والی اس کارروائی میں افغان پولیس کے پانچ اہلکار اور 11 عام شہری ہلاک ہوئے، اور اس دوران پولیس کی تنصیبات پر تین خودکش حملے بھی کیے گئے۔
امریکی حکام ایک طویل عرصہ سے پاکستانی سر زمین پر مبینہ طور پر قائم محفوظ ٹھکانوں سے سرگرم شدت پسندوں کو افغانستان میں ہونے والے پُرتشدد واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکام ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقامی سکیورٹی فورسز کو ہونے والے بھاری جانی نقصانات اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے بدھ کو پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کا ملک افغانستان میں اپنی افواج کو پاکستان سے سرگرم شدت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ’’ہر وہ اقدام کرے گا جو وہ (امریکہ) کر سکتا ہے‘‘۔
حقانی نیٹ ورک کے پاکستانی علاقے میں ٹھکانوں کا معاملہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان دونوں قریبی اتحادیوں کے تعلقات پاکستان کے شمالی شہر ایبٹ آباد میں مئی میں کی گئی امریکی اسپیشل فورسز کی اُس خفیہ کارروائی کے بعد سے انتہائی کشیدہ ہیں جس میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس شدید تناؤ کا اعتراف امریکی سفیر کیمرون منٹر نے بھی کیا جن کا کہنا تھا کہ ’’ان تعلقات پر آج (کل) بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
امریکہ پاکستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مبینہ طور پر قائم حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے، جب کہ پاکستان کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فوجی تعینات ہیں جو عسکریت پسندوں کے خلاف تمام ضروری کارروائیاں کر رہے ہیں اور کسی نئے فوجی آپریشن کا فیصلہ زمینی حقائق کو مدد نظر رکھ کر پاکستان خود کرے گا۔