پاکستان انسداد دہشت گردی کی جنگ اور ملکی دفاعی ضروریات کے لیے اپنی فضائیہ میں نئے ایف سولہ لڑاکا طیارے شامل کرنا چاہتا ہے اور حال ہی میں امریکہ سے ان طیاروں کی خریداری کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے کے بعد اس نے اس ضمن میں دیگر ذرائع پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکہ نے آٹھ ایف سولہ جدید لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو فروخت میں تقریباً 40 کروڑ ڈالر سے زائد رقم بطور زر اعانت فراہم کرنا تھی۔ لیکن کانگریس کے اعتراض کے بعد واشنگٹن نے غیر ملکی فوجی معاونت کی مد میں دیے جانے والے اس زراعانت کو روکتے ہوئے اسلام آباد سے کہا کہ اب پوری رقم خود اسے ہی ادا کرنا ہوگا۔
پاکستانی وزارت دفاع کے سیکرٹری عالم خٹک نے ایوان بالا کی دفاع اور خارجہ امور کی کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ اب ایف سولہ طیاروں کے حصول کے لیے تیسرے فریق سے رابطہ کریں گے اور اس ضمن میں اردن نے پیشکش بھی کی ہے۔
تاہم اس بارے میں سرکاری طور پر کوئی بیان یا طیاروں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
لیکن شائع شدہ اطلاعات کے مطابق اردن نے بلاک 30 ساختہ سولہ استعمال شدہ طیارے پاکستان کو فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے جب کہ امریکہ سے پاکستان نے بلاک 52 ایف سولہ طیارے خریدنے تھے۔
پاکستان یہ کہتا ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں ایف سولہ طیارے بہت اہم ہیں جب کہ دفاعی عہدیدار اسے اپنے روایتی حریف بھارت کی طرف سے لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے بھی ضروری تصور کرتے ہیں۔
دفاع اور سلامتی کے امور کے ماہر اکرام سہگل نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو اپنی دفاعی ضرورت کے لیے طیاروں کا حصول ضروری ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز یہ کہہ چکے ہیں کہ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاملے امریکہ کے رویے سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کو دھچکہ لگا ہے لیکن اگر یہ طیارے امریکہ سے نہیں ملتے تو اس کے لیے دیگر ممالک سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کے روس کے ساتھ دفاعی تعلقات خاصے بہتر ہوئے ہیں اور روس کی طرف سے پاکستان کو جدید لڑاکا ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کا معاہدہ بھی طے پا چکا ہے۔