کروناوائرس کی وبا کے چھ ماہ پورے ہو رہے ہیں اور ابھی تک کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس وائرس کا پہلا حملہ کب اور کہاں ہوا تھا۔
مگر ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ وائرس خطرناک ہے، تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کا فی الحال کوئی علاج نہیں ہے۔
چنانچہ دنیا بھر میں لوگ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو یہ کہ خود کو اس سے بچا کے رکھیں۔ اور اس کا طریقہ اتنا آسان اور سادہ ہے کہ اگر سب لوگ اسے اپنا لیں تو وائرس کی تباہ کاریوں کے اعداد و شمار اتنے پریشان کن نہ رہیں۔ ماسک کا استعمال۔ سوشل ڈسٹینسنگ اور ہاتھ بار بار دھونا۔ دنیا بھر میں بچاؤ کا یہی طریقہ ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جمعرات کے روز دنیا میں کرونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد ایک کروڑ 9 لاکھ سے زیادہ تھی۔ اور پانچ لاکھ 22 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ امریکہ میں 28 لاکھ 28 ہزار سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ 31 ہزار اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
پاکستان میں اب تک 2 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ کیسز ریکارڈ کئے جا چکے ہیں جب کہ اموات ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہیں۔
پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ کیسز صوبہ سندھ میں پائے جارہے ہیں۔ جہاں یہ تعداد نواسی ہزار دو سو سے زیادہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر زنیرہ جلیل کراچی کے ایک سرکاری اسپتال میں سینئیر فزیشن اور میڈیکل اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ابتداء ہی سے کوویڈ نائنٹین کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وائرس کے ابتدائی دنوں میں صورتِ حال بہت گھمبیر تھی مگر اب کچھ بہتری آئی ہے۔
وہ کہتی ہیں مریض ہمارے پاس لائے جاتے ہیں تو ہم ان کا ٹیسٹ بھی کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو انہیں فوراً اسپتال میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے ان کے کوائف بھی لئے جاتے ہیں تاکہ رزلٹ مثبت آنے کے بعد ان کے باقی گھر والوں کا ٹیسٹ بھی کیا جائے اور ان کے مطابق کانٹیکٹ ٹریسنگ کے اس عمل سے بھی وائرس کو محدود رکھنے میں مدد مل رہی ہے۔
ڈاکٹر عمر ایوب خان سارک میڈیکل ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر ہیں۔ اور کامن ویلتھ میڈیکل ٹرسٹ ہیلتھ انیشی ایٹو پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ملک میں کوویڈ کیلئے ٹیسٹوں کی تعداد کم ہو گئی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ مریضوں میں کمی ہے۔ جب کہ وہ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ کے علاوہ کسی شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیسٹوں کی تعداد بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے چاہیں کیونکہ اس وقت ملک میں ٹائیفائیڈ اور ڈینگی کے مریض بھی سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اس میں اگر صرف دس سے پندرہ فیصد افراد کے ٹیسٹ پازیٹیو ہوئے تو دو لاکھ پندرہ ہزار کیسز کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً چھ یا آٹھ لاکھ کے قریب ٹیسٹ ہوئے۔ ان کے مطابق یہ انتہائی کم تعداد ہے اور پانچ فیصد ٹیسٹنگ بھی نہیں ظاہر ہوتی۔ اور یہ ملک کے لئے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو اطلاعات دی ہیں اور جو الیکٹرانک میڈیا پر جاری بھی ہوئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ کچھ روز میں ٹیسٹوں کی تعداد کم ہوئی ہے کیونکہ لوگ ٹیسٹ کیلئے آنا ہی نہیں چاہتے۔
ڈاکٹر زنیرہ جلیل نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حال ہی میں کوویڈ کے مریضوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے والوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ لیکن اگر کسی کا ٹیسٹ پازیٹیو آتا ہے تو کانٹیکٹ ٹریسنگ کے ذریعے باقی لوگوں کو بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عمر ایوب کہتے ہیں کہ ٹیسٹ نہ کروانا لوگوں کا بنیادی حق ہے مگر جو لوگ فلائٹس کے ذریعے یا زمینی بارڈر سے ملک میں داخل ہوتے ہیں ان کا ٹیسٹ تو لازمی ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ان لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا جا رہا تھا اب ایسا نہیں کیا جا رہا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ موسم شدید گرم ہے اور ساتھ ہی عید ایک مرتبہ پھر آ رہی ہے۔ قربانی کے جانور منڈیوں میں لانے کی اجازت مزید خطرات پیدا کرے گی۔ اور کرونا وائرس کے ساتھ ہی کانگو وائرس کا خطرہ بھی پیدا ہو جائے گا۔
ڈاکٹر زنیرہ جلیل نے بھی کہا کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں ورنہ وہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
گذشتہ دنوں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی سابق صدر ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے کہا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ کوئی ایسا سینٹرل ڈیش بورڈ بنائے جس سے ایمبولینسز کو معلوم ہو سکے کہ کس اسپتال میں مریضوں کی گنجائش ہے تاکہ وہ اسی اسپتال میں مریض کو لے کے جائیں۔
ڈاکٹر زنیرہ جلیل کہتی ہیں اب ایسا کر دیا گیا ہے۔ ایک ہیلپ لائن بھی ہے اور ایپ بھی جس کے ذریعے یہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
کے پی کے میں کرونا وائرس کی صورت حال کے بارے میں ڈاکٹر عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ اسپتالوں میں جگہ نہیں اور ڈاکٹر خود بیمار ہو رہے ہیں۔ اور حکومت ابھی تک کسی ایک مشترکہ پالیسی پر عمل نہیں کروا سکی۔ لہذا ہر صوبے کی اپنی پالیسی ہے اور اپنے مسائل اور کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ کیا ہو گا۔
صوبہ سندھ کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زنیرہ جلیل نے کہا کہ حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں ۔ڈاکٹروں کیلئے پی پی ایز یا پرسنل پروٹیکٹیو اکویپمنٹ اور سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی کمی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عید الفطر کے بعد جب وبا کا زور ہوا تو صورت حال واقعی بہت پریشان کن ہو گئی تھی مگر پھر حکومت نے انتظامات کا دائرہ بڑھایا اور بہتر اقدامات کئے جن کی وجہ سے اب حالات قابو میں ہیں۔
سمارٹ لاک ڈاؤن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر ایوب نے کہا کہ کسی علاقے میں ایک مریض سامنے آنے پر اسے لاک کر دیا جاتا ہے مگر بڑے شہروں کے بڑے اسپتالوں میں سینکڑوں مریض ہیں تو پھر ان شہروں میں بھی مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہونا چاہئے۔
پاکستان کی حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک کی بڑی آبادی غربت کا شکار ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اجرت پر گزارہ کرتی ہے، اس لئے ملک میں کہیں بھی مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ ڈاکٹر عمر ایوب خان جیسے طبی ماہرین کا مسلسل اصرار ہے کہ کم از کم دو ہفتے کا مکمل لاک ڈاؤن ملک میں اس وائرس کے پھیلنے کو روک سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کامیاب رہی ہے۔ اور جون کے مہینے میں صحت کیلئے وزیرِ اعظم کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا نے پارلیمنٹ کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ ایسے پانچ سو علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سمارٹ لاک ڈاؤن کیا جائےگا۔
الجزیرہ نیٹ ورک کے مطابق عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان ان ممالک میں سے ایک بن کر ابھرا ہے جہاں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔