بھارتی خارجہ سیکرٹری نروپوما راؤ نے کہا ہے کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے پر امن ، سنجیدہ اور مسلسل بات چیت کا خواہاں ہے۔
اسلام آباد میں دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر جمعہ کی شام اپنے پاکستانی ہم منصب سلمان بشیر کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں اُنھوں نے دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک طویل عرصہ سے جاری محاذ آرائی نے پاکستان اور بھارت کے عوام کو مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
اُن کا کہنا تھا کہ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد امن، تجارت، عوامی رابطوں اور دونوں ملکوں کے عوام کے لیے مفید تعاون پر ہونی چاہیئے۔ ”اکیسویں صدی میں ہمارے (پاک بھارت) تعلقات میں فوجی تصادم کے نظریہ کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔“
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ بات چیت کے دوران خطے میں جوہری یا روایتی جنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اعتماد سازی کے مختلف تجاویز پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق ان اقدامات کو موثر بنانے اور مزید اقدامات پر غور کے لیے ماہرین کی سطح پر اجلاس منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جس کی تاریخ کا اعلان پاکستان اور بھارت کے سفارت کار باہمی مشاورت کے بعد کریں گے۔ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے درمیان سفری اور تجارتی روبط بڑھانے کے لیے قائم مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس بھی آئندہ ماہ بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
لیکن دونوں وفود نے کشمیر کے تنازع پر کسی قابل ذکر پیش رفت کا ذکر نہیں کیا۔ اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے بھارتی خارجہ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو امن ومفاہمت کو قدم بہ قدم آگے بڑھانا ہوگا۔
”ہمیں بندوق کے سائے اورپرتشدد انتہا پسند ی کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ صرف ایک ایسے ماحول میں(کشمیر) ایسے پیچیدہ مسئلے کے حل پر بات چیت کی جا سکتی ہے جو تشدد اور دہشت سے پاک ہو۔“
انھوں نے کہا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے ورکنگ گروپ کے اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ ایک اہم قدم ہے کیونکہ پاک بھارت تعلقات کا مرکزی نکتہ عوام ہیں اور دونوں ملکوں کو جموں و کشمیر کے لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ باہمی رابطے بڑھیں اور انھیں سفر و تجارت کی زیادہ سہولتیں میسر آ سکیں۔
سلمان بشیر کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملکوں کا موقف واضح ہے اور ایل او سی ورکنگ گروپ کا اجلاس بلانابھی اس تنازعہ کے حل کی طرف کوششوں کا حصہ ہے کیوں کہ اس سے سفری سہولتوں اور تجارت میں اضافہ ہو گا جو کشمیر ی عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دے گا۔
نروپوما راؤ نے کہا کہ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پاکستان میں مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے پر بھی اچھی بات چیت کی گئی ہے کیونکہ یہ معاملہ بھارت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ”میں نے ایک بار پھر بھارت کی اس تشویش اور ضرورت پر زور دیا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں آگے بڑھنے کے لیے اس مسئلے کااطمینان بخش منطقی انجام ناگزیر ہے ۔“
سلمان بشیر نے کہا کہ دونوں ملکوں کی داخلہ اُمور کی وزارتیں اس مسئلے پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ یہ رابطے مفید ثابت ہوں گے۔” لیکن میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ بھارت کی تشویش سے آگاہ ہونے کے باوجود ہم امید اور توقع کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے ایشو سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے ملکوں اور تہذیبوں کو خطرہ لاحق ہے اور اس کا خاتمہ ناگزیر ہے ۔“
نیروپوما راؤ نے کہا کہ سمجھوتا ایکسپریس کو پیش آنے والے واقعہ کی تفتیش ابھی جاری ہے اور انھوں نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ تحقیقات مکمل ہونے پر اس کی تفصیلات سے پاکستان کو ضرور آگاہ کیا جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین خارجہ سیکرٹری سطح پر اسلام آباد میں دو روزہ بات چیت کی تکمیل کے ساتھ ہی گزشتہ تین ماہ سے مختلف اُمور پر جاری اعلیٰ سطحی مذاکرات کا سلسلہ بھی مکمل ہو گیا ہے، اور آئندہ ماہ دونوں ملکوں کے وزرائے کارجہ نئی دہلی میں ملاقات کریں گے جس میں مجموعی پیش رفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔
پاک بھارت جامع امن مذاکرات کے آٹھ نکاتی ایجنڈے میں کشمیر کے علاوہ سیاچن گلیشئر، سرکریک، پانی، انسداد دہشت گردی، دوطرفہ تجارت اور ایک دوسرے کے قیدیوں کی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جلد رہائی جیسے موضوعات شامل ہیں۔