پاکستان نے امریکی سفیر کیمرون منٹر کو جمعہ کے روز دفتر خارجہ میں طلب کر کے شمالی وزیرستان میں تازہ ڈرون حملے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ اور اس مہینے برسلز میں ہونے والے پاک، افغان، امریکی مذاکرات میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی ہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے جمعرات کو ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاکتوں پر پاکستان کی طرف سے سخت احتجاج کیا اور امریکی سفیر پر واضح کیا کہ ایسے حملے نہ صرف ناقابل برداشت ہیں بلکہ یہ انسانی قدروں اور قوانین کی بَرمَلا خلاف ورزی بھی ہیں۔
پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے کیمرون منٹر سے کہا کہ اب یہ بالکل عیاں ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بنیادی اصولوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ ”یہ ذمہ داری امریکی وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (محکمہ خارجہ) کی ہے کہ وہ پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرنے والوں کو قابو میں رکھے۔“
دفتر خارجہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکی، افغان اور پاکستانی عہدے داروں کے اُس سہ فریقی اجلاس میں شرکت بھی پاکستان کے لیے ممکن نہیں جو امریکہ کی تجویز پر 26 مارچ کو برسلز میں ہونا ہے۔
اس سے قبل یہ اجلاس فروری میں طے تھا لیکن پاکستان میں ایک امریکی اہلکار کی قتل کے الزام میں گرفتاری پراُس وقت احتجاجاَ امریکہ نے یہ اجلاس ملتوی کردیا تھا۔
بیان کے مطابق امریکی سفیر نے کہا کہ وہ واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کا احتجاج کوئی رسمی کارروائی نہیں اس لیے وہ ہنگامی طور پر واشنگٹن جا کر امریکی قیادت کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ کیمرون منٹر ہفتہ کو واشنگٹن روانہ ہوں گے۔
جمعرات کی صبح شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں کیے گئے ڈرون حملے میں اطلاعات کے مطابق مقامی جرگے کے ایک اجلاس میں شریک کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت قبائلی عمائدین کی تھی۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گذشتہ شب جاری کیے گئے ایک بیان میں اس میزائل حملے کو ”ناقابل فہم“ قرار دیتے ہوئے اس کی پُرزور مذمت کی تھی۔
”انسانی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے پُرامن شہریوں کے جرگے کو بے پرواہی اور سنگدلی سے نشانہ بنانا انتہائی افسوس ناک امر ہے۔“
مبصرین کی رائے میں فوج کے اس غیر معمولی رد عمل نے وزارت خارجہ کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ امریکی سفیر کو طلب کرکے اُنھیں دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کے ردعمل سے آگاہ کیا جائے۔
معروف تجزیہ گار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس شدید احتجاج کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی طویل المدتی کشیدگی کے امکانات انتہائی محدود ہیں لیکن حالیہ پیش رفت پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک عرصے سے جاری تناؤ کی عکاسی کرتی ہے۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ماضی میں بھی بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کے ذریعے حملے کیے جاتے رہے ہیں لیکن فوج نے اُن کی کبھی اس انداز میں مذمت نہیں کی، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جمعرات کے ہلاکت خیز حملے میں حقیقتاً عام قبائلی مارے گئے ہیں۔