انسدادِ منشیات کے لیے مقامی حکمت عملی ناگزیر

انسدادِ منشیات کے لیے مقامی حکمت عملی ناگزیر

پاکستان کی انٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے سربراہ میجر جنرل سید شکیل حسین نے کہا ہے کہ محض انتظامی اقدامات سے کامیابی حآصل نہیں ہو گی کیوں کہ حقیقی کامیابی کے لیے عوامی مہم، میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت ناگزیر ہے تاکہ مغربی دنیا میں زیادہ آگاہی کے لیے وہ حکومت کا ہاتھ بٹا سکیں۔

پاکستان نے کہا ہے کہ منشتیات کے انسداد کے لیے وہ مخلصانہ اور موثر کوششیں کر رہا ہے اور گزشتہ 10 برسوں میں پہلی مرتبہ رواں سال اس کو پوست کی کاشت سے پاک ملک قرار دے دیا جائے گا۔

کابل میں پیر کو روس، پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کے انسداد منتشیات کے اعلٰی حکام پر مشتمل چار ملکی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے سربراہ میجر جنرل سید شکیل حسین نے کہا کہ منشیات کی سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے اُن کے ملک نے ایک منظم پالیسی اپنا رکھی ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے دستیاب اداروں کے مابین تعاون بہتر کرنے کے علاوہ، ایک تربیتی اکیڈمی قائم کی گئی ہے جبکہ سمگل کی جانے والی منشیات کی قبضے میں لی جانے والی کھیپوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن اُنھوں نے کہا کہ منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے وہ اس کی مجموعی پیدوار کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے۔

جنرل شکیل کا کہنا تھا کہ اب تک جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ’’اُن سے ہمیں اُمید کی ایسی کوئی کرن نہیں ملتی جس سے ہم یہ کہہ سکیں کہ منیشات کی لعنت کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہوگی۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں منیشیات کے انسداد کے لیے جو کچھ بھی کیا گیا اس کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔ ’’ہمیں انتہائی مخلصانہ انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں اہداف کے حصول کے لیے کیا کیا جائے۔ اور اگر اس مرحلے پر ہم درست فیصلے نہیں کرتے تو ہم اس کا خمیازہ ادا کرتے رہیں گے اور ہماری آنے والے نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘

جنرل شکیل کا کہنا تھا کہ اب بغیر نتائج کے اجلاسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انتہائی سنجیدہ مذاکرات کرنے ہوں گے۔

’’انسداد منشیات کے لیے دستیاب مالی وسائل سے 25 فیصد سے زیادہ ایسی کانفرنسوں اور سیمیناروں پرخرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کم سے کم 75 فیصد عملی اقدامات پر خرچ کرنا ہوگا۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ بالعموم عالمی برادری اور ذرائع ابلاغ منیشیات کے انسداد کے لیے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کر رہے۔ میں نے میڈیا پر کبھی بھی کسی کو براہ راست یہ سوال پوچھتے نہیں سنا کہ اتنی بڑی تعداد میں بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں بغیر رکاوٹ کے منیشیات کی پیداور کیوں جاری ہے۔ کون یہ سوال پوچھے گا۔ کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ اگر آپ یہ بنیادی سوالات نہیں پوچھتے، تو ہم کیونکہ کامیاب ہوں گے۔‘‘

اُنھوں نے واضح کیا کہ محض انتظامی اقدامات سے کامیابی حآصل نہیں ہو گی کیوں کہ حقیقی کامیابی کے لیے عوامی مہم، میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت ناگزیر ہے تاکہ مغربی دنیا میں زیادہ آگاہی کے لیے وہ حکومت کا ہاتھ بٹا سکیں۔

’’جو ممالک انسداد منشیات کے لیے وسائل فراہم کر رہے ہیں وہ طلب میں کمی کے لیے فراہم کیے جانے والے وسائل کے مقابلے میں سپلائی میں کمی کے لیے بہت کم وسائل فراہم کرتے ہیں۔ ایسے منصوبے جو زمینی حقائق سے دور رہ کر تیار کیے جا رہے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ جو لوگ اس مسئلے سے براہ راست نمٹ رہے ہیں انہی کو منصوبے بھی تیار کرنے ہوں گے کیونکہ اقوام متحدہ کے تیار کردہ منصوبوں کی بدولت آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں اور دیانتداری کی بات یہ ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود یہ صورت حال کسی کے لیے بھی اطمینان بخش نہیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ جن منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے اُن کا مقامی ثقافت اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ’’یہ مخلصانہ کوششیں اگر افغانستان میں زمینی حقائق، یہاں پر سیاسی چال بازیوں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ڈھانچے کو مدنظر نہیں رکھتیں، ہم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘

جنرل شکیل نے کہا کہ افغانستان کا پوست کاشت کرنے والے غریب کسان اس تجارت سے مستفید نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کا اصل فائدہ حاصل کرنے والے دنیا کے دارالحکومتوں میں بیٹھے ہیں جن کی اکثریت اس خطے سے باہر ہے۔ ’’انسداد منشیات کےاقوام متحدہ کے ادارے کے پرانے اندازوں کے مطابق منشیات کی عالمی تجارت کا سالانہ حجم 68 ارب ڈالر ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگرایک نیا سروے کیا جائے تو یہ یقیناََ 200 ارب ڈالرز ہوگا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں منشیات کی اس تجارت کا سالانہ حجم چار ارب ڈالر ہے جس میں سے محض 15 کروڑ ڈالرزغریب کاشتکاروں کو ملتے ہیں۔

جنرل شکیل نے کہا کہ ’’ہمیں حقیقی منصوبے نافذ کرنا ہوں گا اور خفیہ معلومات جمع کرنے پر ہمیں وسائل خرچ کرنا ہوں گے۔ میں بین الاقوامی برادری اور میڈیا پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس لڑائی میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ منیشیات کا اگلا شکار آپ کے اپنے گھر میں رہنے والا یا پھر آپ کا دوست ہو سکتا ہے۔‘‘