پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی مناسب صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالرمالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
یہ بات پانی کی تقسیم کے وفاقی ادارے' ارسا' اور 'پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز ' کے عہدیداروں نے جمعرات کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتائی۔
پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پانی کی کمی کی کئی وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " ہماری آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ شہری آبادیوں میں بھی اضافے کا باعث بن رہا ہے اس کے ساتھ ملک میں صنعتی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے پانی کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی مناسب صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بڑی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
" ہم اس وقت جو پانی ذخیرہ کر رہے ہیں وہ پاکستان میں ہرسال بہنے والے اوسط پانی کا صرف 10 فیصد کے برابر ہے جبکہ دنیا میں یہ اوسط 40 فیصد کے برابر ہے ۔ اس کی وجہ سے ہم پانی کی ایک بڑی مقدار کا ذخیرہ نہیں کر رہے ہیں اس کی وجہ سے 2010ء، 2011ء اور 2014ء میں پاکستان میں آنے والے سیلاب میں نو کرروڑ 30 لاکھ ایکٹر فٹ پانی ہمارے سسٹم سے خارج ہو گیا ۔ اگر ملک کے پاس اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے ڈیم ہوتے تو ہم اس کو محفوط کر لیتے۔"
ماہرین کا کہنا ہےکہ ملک کے موجود ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے صلاحیت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اس کی وجہ ہر سال ڈیموں میں مٹی اور گارے کی تہ کا بلند ہونا ہے جس کی وجہ سے صرف تربیلا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 60 لاکھ ایکٹر فٹ کمی واقع ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر اشرف نے کہا کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے 2025ء تک پاکستان کو پانی ذخیرے کرنے والے تین بڑے ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ملک میں پانی کو ذخیرے کرنے کے لیے بروقت اقدام نہ کیے گئے تو پاکستان کو آئندہ سالو ں میں پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 70 سالوں کے دوارن ملک میں فی کس دستیابی لگ بھگ ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس تک کم ہو گئی ہے جبکہ 1947 میں پاکستان بننے کی وقت فی کس پانی کی دستیابی چھ ہزار کیوبک میٹر تھی۔
اگرچہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں کے تحت پانی کو ذخیرہ کرنے کرنے کے متعدد منصوبوں پر ںاصرف کام جاری ہے بلکہ کئی دیگر منصوبوں کے لیے بجٹ میں رقم بھی مختص کی گئی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کی بروقت تکمیل ضروری ہے تاکہ پانی کی کمی کو دور کیا جا سکے