|
پاکستان کے وزارتِ منصوبہ بندی نے ایک حالیہ رپورٹ میں ملک میں تعلیمی میدان میں پائے جانے والے نمایاں تفاوت اور کم معیار کی نشاندہی کی ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا مجموعی معیار تعلیم کم ہے جب کہ ملک کے اندر بھی کسی بھی صوبے کا معیار اعلیٰ نہیں پایا گیا۔
ماہرین تعلیم کے مطابق رپورٹ میں جاری کیے گئے حقائق افسوس ناک ہیں اور اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ملک کے تعلیمی نظام میں بہتری لائے بغیر اقتصادی اور معاشرتی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
مبصرین اور ماہرینِ تعلیم یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہر سال کئی ہزار ارب روپے تعلیم پر خرچ کیے جانے کے باوجود نتائج قابلِ اطمینان کیوں نہیں ہیں؟ حکومت کو تعلیم کے نظام میں بہتری کے لیے اعلانات سے زیادہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
مشترکہ نصاب کی تیاری پر عدم اتفاق
کریئر کونسلنگ کرنے والے ماہرِ تعلیم سید عابدی کہتے ہیں کہ سرکاری رپورٹ پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت معیارِ تعلیم کس جگہ پر کھڑا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم کو اس وقت کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج نصاب کی تیاری کا ہے جس پر سب ہی متفق ہوں۔
ان کے بقول ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ اس معاملے پر سیاسی اختلافات کے باعث اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا اور نتیجہ یہ رہا کہ صوبے اور وفاق میں نصاب کے معاملے پر اختلافات مزید شدت اختیار کرگئے جب کہ ہمارا نصاب جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہی نہیں ہو سکا۔
اساتذہ کی تربیت کا فقدان
ماہرِ تعلیم سید عابدی نے مزید کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ اساتذہ کی ٹریننگ کے فقدان کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ایک ایسا ایشو جسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔
انہوں نے ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت 39 فی صد گھوسٹ ٹیچرز ہیں۔ یعنی وہ سرکار سے تنخواہ تو لے رہے ہیں۔ لیکن کسی سرکاری اسکول میں پڑھانے کے بجائے کوئی اور کام کر رہے ہیں۔
سید عابدی کے خیال میں اس کے ساتھ ہی جڑا ہوا مسئلہ گھوسٹ اسکولز کا ہے جو سندھ اور بلوچستان میں بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ گھوسٹ اساتذہ کو علاقے کے جاگیردار تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اکثر وہی اسکولوں کو اوطاق، بیٹھک، اصطبل یا اسی طرح کے دیگر کاموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں ریاست کی واضح ناکامی دیکھی جاسکتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم چوں کہ صوبوں کا معاملہ ہے تو اس کی ذمے داری وہاں کی صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
والدین کا بچوں کو اسکول بھیجنے سے کترانا
تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سید عابدی نے کہا کہ ملک میں تمام ہی سرکاری اسکولوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں پہنچ پائی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ کو بھی انٹرنیٹ تک فوری اور بہتر رسائی دستیاب نہیں۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس سے اساتذہ اور طلبہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے تعلیمی معیار پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔
سید عابدی کے خیال میں ایک اور اہم مسئلہ یہاں بچوں کی حفاظت یا سیکیورٹی کا ہے۔ ہمارے خطے میں عام طور پر لڑکیاں 11 سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں اور اس عمر کی بچیوں کو والدین دیہی علاقوں میں اس لیے اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ بہت سے اسکولوں میں واش روم جیسی بنیادی سہولت نہیں ہوتی۔
ان کے بقول لڑکیوں کے اسکولوں کی چار دیواری نہیں ہوتی اور کئی اسکولوں میں تو بیٹھنے کے لیے کلاس روم اور پینے کا پانی بھی مہیا نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رواں سال تعلیم کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی ہے؟
سید عابدی کے بقول ہر سال چاروں صوبوں اور وفاق کئی ہزار ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن نتائج قابل اطمینان بھی نہیں ہوتے۔
ملک کے چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعلیم کی بہتری اوت فروغ کے لیے رواں مالی سال کی مجموعی قومی آمدن کا ایک اعشاریہ 91 فی صد مختص کیا گیا ہے جو لگ بھگ دو ہزار 32 ارب روپے کی خطیر رقم بنتی ہے۔
ماہرین کے بقول ایک جانب یہ رقم ٹھیک طور پر خرچ نہیں کی جاتی اور اس میں بیشتر رقم تنخواہوں کی ادائیگی میں خرچ ہوتی ہے جب کہ تعلیم کے لیے انفراسٹرکچر کی فراہمی، تحقیق اور تعلیمی معیار کو بڑھانے پر بہت کم رقم بچ پاتی ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی معیار کے مطابق ہر ملک کو اپنے جی ڈی پی (مجموعی قومی آمدن) کا چار فی صد تعلیم پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو رواں سال چار ہزار 242 ارب روپے تعلیم پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
سید عابدی کے بقول ملک میں تعلیمی نظام ان وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر انحطاط کا شکار اور کرپشن میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے منصوبے مکمل نہیں ہو پاتے اور حتیٰ کہ تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل درسی کتابیں تک دستیاب نہیں ہوپاتیں۔
امیر اور غریب بچوں کے لیے الگ الگ سہولیات
ماہرِ تعلیم سید عابدی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ملک کے تعلیمی نظام میں نجی شعبہ بہتر تعلیم بچوں کرنے کا ذریعہ رہا ہے اور کئی تعلیمی اداروں کا معیار ترقی یافتہ اقوام سے کم نہیں۔
ان کے بقول اس میں مسئلہ یہ ہے کہ ایسے نجی اداروں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا غریب اور حتیٰ کہ متوسط طبقے کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہیں۔
نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایک عام کسان، مزدور یا کم تنخواہ کا حامل اپنے بچوں کو ایسے مہنگے نجی اسکولوں میں پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہی وجوہات کی بنا پر ملک میں طبقاتی نظام جڑ پکڑ رہا ہے۔
طبقاتی نظام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غریب کے بچوں کے لیے کچھ اور تعلیم ہے جب کہ امیروں کے بچوں کی تعلیم کے لیے الگ ہی نظام ہے۔
نظامِ تعلیم کو نقصان کب پہنچا؟
معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کہتی ہیں کہ ملک میں اس وقت تعلیم کے میدان کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ کمرشلائزیشن ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ملک میں تعلیم کی ہیئت بدل دی گئی ہے۔ تعلیم صرف پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ ایسے میں تعلیم، تعلیم نہیں رہتی بلکہ وہ تجارت بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کو تجارت بنانے کے ساتھ، تربیت کو اس سے کوسوں دور کر دیا گیا ہے اور اب تعلیم اور تربیت کو ایک ہی معنی میں لینے کے بجائے اسے دو الگ سانچوں میں ڈھال دیا گیا ہے۔
عارفہ زہرا کے خیال میں ملک میں جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے تعلیم کو فوقیت ہی نہیں دی بلکہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا۔
ان کے بقول حکمرانوں کے قول و فعل میں اس قدر تضاد اور خود نمائی غالب آچکی ہے کہ اب تعلیم ان کی فہرست میں کہیں دور ہے اور جو ملک تعلیم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے وہاں کسی بہتری اور حقیقی ترقی صرف خواب ہی رہ جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس رپورٹ میں کیا ہے؟
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کا اجراء گزشتہ جمعے کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے صوبوں اور اضلاع میں تعلیمی کارکردگی میں نمایاں تفاوت کا انکشاف کیا گیا ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پرفارمنس انڈیکس 23-2020 میں ضلعی سطح کی تعلیمی کارکردگی کی پیمائش کی گئی ہے اور اس میں کلیدی نتائج تعلیم تک رسائی، لرننگ یعنی سیکھنے کے بعد کے نتائج، مساوات اور ٹیکنالوجی کے استعمال، گورننس اور مینجمنٹ (انتظام و انصرام)، انفراسٹرکچر اور پبلک فنانسنگ جیسے انڈیکیٹرز کی روشنی میں جاری کیے گئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے تمام اضلاع سمیت 134 اضلاع کا احاطہ کرنے والی رپورٹ بتاتی ہے کہ انڈیکس پر پاکستان کا قومی اوسط پر اسکور 100 میں سے 53 رہا جس نے ملک کو کم کارکردگی کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
ملک کے اندر، تمام صوبوں میں بھی تعلیم کے میدان میں نمایاں تغیرات دیکھے گئے ہیں۔ پنجاب 100 میں سے 61 نمبر حاصل کرکے سرفہرست کارکردگی دکھانے والے صوبے کے طور پر ابھرا ہے۔
اس فہرست میں خیبر پختنوخوا 55 نمبر حاصل کرکے دوسرے نمبر پر ہے۔
سندھ 51 نمبر جب کہ بلوچستان 100 میں سے 46 نمبر حاصل کرکے بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر رہے ہیں۔
رپورٹ کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ کوئی بھی صوبہ اعلیٰ یا بہت اعلیٰ کارکردگی دکھانے کے زمرے میں نہیں آسکا۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ دونوں میڈیم کیٹیگری میں آتے ہیں۔
اضلاع میں تعلیم کا معیار
اگر اضلاع کی بات کی جائے تو ملک بھر کے کسی صوبے کا کوئی ضلع بھی بہت اعلیٰ کی کیٹیگری میں نہیں آسکا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اعلیٰ کیٹیگری کے زمرے میں پنچنے والا واحد مقام ہے۔
ملک بھر میں 77 ایسے اضلاع رہے ہیں جن کی تعلیمی میدان میں کارکردگی ’کم‘ شمار کی گئی ہے اور ان اضلاع میں ملک کے مجموعی اسکول جانے والے بچوں کی تعداد کا 36 فی صد ہے اور ان میں سے زیادہ تر اضلاع سندھ (22 اضلاع) اور بلوچستان (33 اضلاع) میں ہیں۔
اسی طرح پاکستان بھر کے 56 اضلاع کو میڈیم کیٹیگری میں رکھا گیا ہے اور ایسے اضلاع سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہیں۔
ایسے اضلاع کی سب سے بڑی تعداد پنجاب (32 اضلاع) اور خیبر پختونخوا (16 اضلاع) میں ہے جب کہ سندھ میں ایسے اضلاع کی تعداد محض آٹھ ہے جب کہ بلوچستان میں ایسا کوئی ضلع سامنے نہیں آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کونسا ضلع کس نمبر پر رہا؟
ملک کے 134 اضلاع کی رینکنگ میں پہلے 10 نمبروں میں شمار ہونے والے اضلاع میں اسلام آباد کے بعد پنجاب کے سات اور خیبر پختونخوا کے دو اضلاع شامل ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کا کوئی ضلع پہلے 10 اضلاع میں جگہ نہیں بنا سکا۔
اسی طرح سب سے پست اسکور کے حامل 10 اضلاع میں بلوچستان کے چھ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے دو دو اضلاع شامل کیے گئے ہیں۔
ملک کے 134 اضلاع میں سب سے بڑے شہر کراچی کا پہلا ضلع جو تعلیمی پرفارمنس میں آگے رہا وہ ضلع شرقی ہے جس نے 134 میں سے 14 واں نمبر حاصل کیا۔
کراچی کا ضلع وسطی 15 ویں، ضلع کورنگی 20ویں، ضلع جنوبی 26 ویں، ضلع کیماڑی 40 ویں ، ضلع غربی 49 ویں اور ملیر 52ویں نمبر پر ہے۔
’بچوں کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو نکھارنا ہوگا‘
رپورٹ کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے انسانی سرمائے کی ترقی میں پاکستان کی پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے اقرار کیا کہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں اور علاقائی ہم عصروں کے مقابلے میں یہاں تعلیم کے میدان میں پیش رفت سست رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں مرتب کیے گئے نتائج ایک سنجیدہ یاد دہانی کے طور پر کام کرتے ہیں کہ ملک بھر میں تعلیمی نتائج کو بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے تعلیمی اشاریے دوسرے ہم عمر ممالک سے پیچھے رہیں گے جب تک ہم 90 فی صد خواندگی اور یونیورسل پرائمری انرولمنٹ حاصل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم کے ذریعے اپنے بچوں میں تخلیقی صلاحیت، تنقیدی سوچ اور ٹیم ورک کی مہارتیں پیدا کریں۔ اسکولوں میں داخلے بڑھانا بھی ایک چیلنج ہے۔
پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی رواں سال جاری ہونے والی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دو کروڑ 62 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں سے سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے جہاں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار سے زائد بچے اسکول جانے کی عمر میں پہنچنے کے باوجود کسی اسکول میں داخل نہیں ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی سندھ میں تعداد 76 لاکھ، خیبر پختونخوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور اسلام آباد میں 80 ہزار ہے۔
اس رپورٹ کے مندرجات کے مطابق کے مختلف علاقوں میں ضروری سہولیات کی دستیابی میں نمایاں تفاوت ہے۔
اسلام آباد، پنجاب اور خیبر پختونخوا اس سلسلے میں نسبتاً بہتر حالات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاہم دیگر صوبوں بالخصوص بلوچستان کو اس ضمن میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بلوچستان میں صرف 23 فی صد پرائمری اسکولوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے جو کہ سب سے کم ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 31 فی صد، سندھ میں 61 فی صد، گلگت بلتستان میں 63 فی صد اسکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر ہے۔
پرائمری اسکولوں میں بیت الخلا کی بھی کمی پائی جاتی ہے۔
بلوچستان میں صرف 33 فی صد، کشمیر میں 42 فی صد اور سندھ کے 57 فی صد اسکولوں میں یہ سہولت دستیاب ہے۔
دوسری جانب رپورٹ بتاتی ہے کہ سندھ کے 59 فی صد اسکولوں، بلوچستان میں 39 فی صد، کشمیر میں 31 فی صد اور گلگت بلتستان میں 61 فی صد اسکولوں کی دیواریں ہیں۔
پنجاب اور اسلام آباد تمام ہی پرائمری اسکولوں میں بجلی فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیں جب کہ بلوچستان میں صرف 15 فی صد، کشمیر میں 21 فی صد، سندھ میں 38 فی صد اور گلگت بلتستان میں 44 اسکولوں کو یہ سہولت موجود ہے۔
ملک میں تعلیمی ایمرجنسی
وفاقی حکومت کی جانب سے اپریل میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
حکومت نے آئندہ چار برس کے لیے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تعلیمی ایمرجنسی کے تحت تعلیمی بجٹ کو مجموعی قومی آمدن کے پانچ فی صد تک لانے اور دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد اسکول سے باہر بچوں کی اکثریت کو اسکولوں میں داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے۔