رپورٹ کے مطابق، سرکاری اداروں میں زیر تعلیم پانچویں جماعت کے اکثر بچے دوسری جماعت کی سطح کی اردو، سندھی زبانوں کی کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔ شہری علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح صرف 15 فیصد، جبکہ دیہی علاقوں میں 28 فیصد ہے
کراچی —
پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام کوئی اچھی تصویر پش نہیں کر رہا۔ اس بات کا انکشاف، پاکستان کی تعلیمی صورتحال پر کیے گئے ایک حالیہ جائزے میں کیا گیا ہے۔
اس جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے بچوں کی اکثریت معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے۔ یہ رپورٹ تعلیم کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے 'اثر' نامی گروپ کی جانب سے ملک کے دیہات اور شہری علاقوں کے تعلیمی اداروں پر مرتب کی ہے۔
نجی و سرکاری تعلیمی ادارے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہروں اور دیہات کے تعلیمی نظام میں نہایت فرق ہے، جبکہ نجی تعلیمی اداروں کا معیار سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ شہروں میں 59 فیصد نجی اسکول اور دیہاتوں میں 27 فیصد نجی اسکول موجود ہیں، جہاں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں میں رہائش پذیر 8 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے، جبکہ دیہات میں یہ شرح 21 فیصد بتائی گئی ہے۔
سروے میں تعلیم یافتہ ماؤں کا بھی اندراج
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسکول میں زیر تعلیم طالبعلموں سمیت ان کی ماؤں کے اعداد و شمار بھی شامل کئے گئے ہیں، جس کے مطابق شہروں سے تعلق رکھنےوالی 60 فیصد مائیں اور دیہات کی صرف 24 فیصد مائیں لازمی و بنیادی تعلیم رکھتی ہیں۔
شہر اور دیہات کے تعلیمی اداروں کا معیار
پاکستان کی دو تہائی آبادی کا حصہ دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ تعلیمی اداروں سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیہاتی علاقوں میں 21 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ شہری علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح 8 فیصد ہے۔ مزید بتایا ہے کہ گزشتہ سال 74 فیصد دیہات کے بچے سرکاری اسکولوں میں داخل کئےگئے، جبکہ شہری علاقوں میں داخلوں کی شرح 41 فیصد رہی۔
شہری علاقوں کی بات کیجائے تو 59 فیصد بچے نجی اسکولوں میں داخل کئےگئے، جس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ معیاری تعلیم فراہم کرنے میں سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہری علاقوں کی نسبت دیہات میں رہنےوالے بچوں میں انگریزی تعلیم میں بھی نہایت فرق سامنے آیا ہے، جبکہ پانچویں جماعت کے کئی بچے دوسری جماعت کی سطح کی اردو، سندھی زبانوں کی کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔ شہری علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح 15صرف فیصد، جبکہ دیہی علاقوں میں 28 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان بھر میں پست تعلیمی معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیوشن پڑھنے کے رجحان میں اضافہ
رپورٹ بتاتی ہے کہ شہری علاقوں میں 71 فیصد بچے ٹیوشن لیتے ہیں، جبکہ دیہاتی علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح صرف 30 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پرائیویٹ ٹیوشن کا رواج بھی بڑھ رہا ہے، جسمیں شہری علاقوں کے زیادہ تر طالبعلم تعلیمی اداروں سمیت ٹیوشن کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
سروے میں ملک بھر کے 138 دیہاتی اضلاع اور 13 شہری اضلاع کو شامل کیا گیا ہے، جسمیں ڈھائی لاکھ بچوں کی شرکت کو ممکن بنایا گیا، جو ملک بھر کے کسی نہ کسی اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ ہر بچے کو مفت لازمی تعلیم فراہم کرے، جبکہ اسکولوں سے باہر تمام بچوں کے داخلوں کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اسکولوں کی مانیٹرنگ کریں، آیا وہ بہتر تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ، اچھے تعلیمی معیار کو ممکن بنا کر، اسکول اساتذہ اور طالبعلموں کیلئے ٹریننگ سہولیتیں فراہم کیجائیں۔
اس جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے بچوں کی اکثریت معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے۔ یہ رپورٹ تعلیم کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے 'اثر' نامی گروپ کی جانب سے ملک کے دیہات اور شہری علاقوں کے تعلیمی اداروں پر مرتب کی ہے۔
نجی و سرکاری تعلیمی ادارے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہروں اور دیہات کے تعلیمی نظام میں نہایت فرق ہے، جبکہ نجی تعلیمی اداروں کا معیار سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ شہروں میں 59 فیصد نجی اسکول اور دیہاتوں میں 27 فیصد نجی اسکول موجود ہیں، جہاں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں میں رہائش پذیر 8 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے، جبکہ دیہات میں یہ شرح 21 فیصد بتائی گئی ہے۔
سروے میں تعلیم یافتہ ماؤں کا بھی اندراج
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسکول میں زیر تعلیم طالبعلموں سمیت ان کی ماؤں کے اعداد و شمار بھی شامل کئے گئے ہیں، جس کے مطابق شہروں سے تعلق رکھنےوالی 60 فیصد مائیں اور دیہات کی صرف 24 فیصد مائیں لازمی و بنیادی تعلیم رکھتی ہیں۔
شہر اور دیہات کے تعلیمی اداروں کا معیار
پاکستان کی دو تہائی آبادی کا حصہ دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ تعلیمی اداروں سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیہاتی علاقوں میں 21 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ شہری علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح 8 فیصد ہے۔ مزید بتایا ہے کہ گزشتہ سال 74 فیصد دیہات کے بچے سرکاری اسکولوں میں داخل کئےگئے، جبکہ شہری علاقوں میں داخلوں کی شرح 41 فیصد رہی۔
شہری علاقوں کی بات کیجائے تو 59 فیصد بچے نجی اسکولوں میں داخل کئےگئے، جس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ معیاری تعلیم فراہم کرنے میں سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہری علاقوں کی نسبت دیہات میں رہنےوالے بچوں میں انگریزی تعلیم میں بھی نہایت فرق سامنے آیا ہے، جبکہ پانچویں جماعت کے کئی بچے دوسری جماعت کی سطح کی اردو، سندھی زبانوں کی کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔ شہری علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح 15صرف فیصد، جبکہ دیہی علاقوں میں 28 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان بھر میں پست تعلیمی معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیوشن پڑھنے کے رجحان میں اضافہ
رپورٹ بتاتی ہے کہ شہری علاقوں میں 71 فیصد بچے ٹیوشن لیتے ہیں، جبکہ دیہاتی علاقوں میں ایسے بچوں کی شرح صرف 30 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پرائیویٹ ٹیوشن کا رواج بھی بڑھ رہا ہے، جسمیں شہری علاقوں کے زیادہ تر طالبعلم تعلیمی اداروں سمیت ٹیوشن کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
سروے میں ملک بھر کے 138 دیہاتی اضلاع اور 13 شہری اضلاع کو شامل کیا گیا ہے، جسمیں ڈھائی لاکھ بچوں کی شرکت کو ممکن بنایا گیا، جو ملک بھر کے کسی نہ کسی اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ ہر بچے کو مفت لازمی تعلیم فراہم کرے، جبکہ اسکولوں سے باہر تمام بچوں کے داخلوں کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اسکولوں کی مانیٹرنگ کریں، آیا وہ بہتر تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ، اچھے تعلیمی معیار کو ممکن بنا کر، اسکول اساتذہ اور طالبعلموں کیلئے ٹریننگ سہولیتیں فراہم کیجائیں۔