پاکستان کی حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے سلسلے میں جلد ہی چین سے کم بجلی صرف کرنے والے دو کروڑ بلب درآمد کرکے اُن کی شہریوں میں مفت تقسیم شروع کرنے جا رہی ہے۔
اس منصوبے پر ایشیائی ترقیاتی بینک اور فرانس کے ایک امدادی ادارے کے اشتراک سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور مجموعی طور پر ملک بھر میں تین کروڑ روایتی برقی قمقموں کو انرجی سیور بلبوں یا کامپیکٹ فلاریسنٹ لیمپس (سی ایف ایلز) سے تبدیل کیا جانا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس تبدیلی سے 1,000 میگا واٹ بجلی بچائی جا سکے گی۔
ماہرین اس منصوبے کی افادیت سے متفق ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ انرجی سیور بلبوں کی تقسیم کے ساتھ صارفین کو ان کے محفوظ استعمال سے آگاہ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
ان برقی قمقموں میں کیمائی مادہ مرکری موجود ہوتا ہے جو بلب ٹوٹنے کی صورت میں ماحول میں پھیل کر انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
بجلی کی گھپت میں مسلسل اضافے جبکہ بجلی گھروں کو قدرتی گیس کی فراہمی میں تعطل، ڈیموں میں پانی کی کمی اور بجلی کی پیداواری کمپنیوں کو واجب الادا رقم کی عدم فراہمی کے باعث پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، جس کے باعث جہاں صنعتی شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے وہیں حالیہ مہینوں میں بجلی کی طویل دورانیے کی بندش پر گھریلوں صارفین کے احتجاجی مظاہروں میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
ان سنگین حالات میں ایک خوش آئند پیش رفت گزشتہ ہفتے اُس وقت ہوئی جب صوبہ سندھ کے ریگستانی علاقے تھر میں کوئلے کے زیر زمین ذخائر کو گیس میں تبدیل کرنے کے تجربے میں کامیابی کا اعلان کیا گیا۔
اس منصوبے کے نگران ملک کے معروف جوہری سائنس دان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہیں۔
اُنھوں نے تھر میں کیے جانے والے کامیاب تجربے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ماہرین ابھی صرف تھر کول کے ذخائر کے ایک حصے پر کام کر رہے ہیں۔
’’ہمارے پاس بلاک نمبر 5 ہے جو کہ تھرکول فیلڈ کے کل رقبے کا صرف ایک فیصد ہے۔ اس سے ہم 30 سال تک 10,000 میگا واٹ بجلی بنا سکتے ہیں اور اگر پوری فیلڈ کو لیا جائے تو ظاہر ہے وہ تو 100 گنا بڑا ذخیرہ ہے، تو آپ چاہیں تو 50,000 میگا واٹ بجلی اگلے 700 سال تک بنا سکتے ہیں، وہ تو لامحدود ذخیرہ ہے۔‘‘
تھر کول کا شمار دنیا میں کوئلے کے وسیع ترین ذخائر میں ہوتا ہے اور مختلف حکومتوں کے ادوار میں ان سے استفادہ کرنے کے منصوبے بنائے گئے لیکن علاقے میں بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی، اقتصادی مسائل اور سیاسی ترجیحات کی بنا پر ان کو عملی جاما نہیں پہنایا جا سکا۔