پاکستان کی وفاقی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی نے ملک کے چاروں صوبوں بالخصوص پنجاب میں جاری شدید گرمی پر ہیٹ ویو الرٹ جاری کیا ہے۔
دنیا بھر کی طرح جنوبی ایشیا کو رواں سال شدید گرمی کا سامنا ہے اور بعض عالمی موسمیاتی اداروں اور پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں درجۂ حرارت 49 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کا بھی اندیشہ ہے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ ملک کو مارچ سے غیر متوقع گرمی کی شدید لہر کا سامنا ہے اور اس سال پاکستان میں درجۂ حرارت میں معمول سے چھ سے آٹھ ڈگری تک اضافے کا امکان ہے۔
ادھر محکمۂ موسمیات کے مطابق رواں سال مارچ کامہینہ 1961 سے اب تک کا گرم ترین مہینہ تھا جب کہ مارچ میں بارشیں بھی معمول سے 62 فی صد کم ریکارڈ کی گئی ہیں۔
محکمۂ موسمیات کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ سال 2018 میں اپریل میں سندھ کا شہر نواب اس وقت شاہ دنیا کا گرم ترین شہر بن گیا تھا جب وہاں پارا 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر چلا گیا تھا۔
عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے ایک جانب پاکستان میں ان دنوں غیر معمولی گرمی پڑ رہی ہے تو دوسری جانب ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے اور تمام صوبوں کے شہروں اور دیہی علاقوں میں 10 سے 12 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے توانائی کی میٹنگ میں جب یہ سوال اٹھایا گیا تو ایڈیشنل سیکریٹری وزارتِ توانائی نے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا کہ اس وقت ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت تو 38 ہزار میگاواٹ ہے ، لیکن ملک میں اس وقت صرف 18 ہزار 500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکام اس کی وجہ ایندھن اور آر ایل این جی کی کمی بتا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب ملک میں بجلی کی طلب گزشتہ سال اپریل کے مقابلے میں 38 فی صد زیادہ ہے۔
توانائی امور کے ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اس بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آر ایل این جی فراہم کرنے والے دو سپلائرز اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے جس کی وجہ سے بجلی کے پانچ ہزار 800 میگاواٹ کے پلانٹس جو ایل این جی پر چلتے ہیں، انہیں چلانا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں اس وقت پانی سے بجلی کی پیداوار بھی کم ہے اور اس پیداوار میں اضافہ عام طور پر جون، جولائی اور اگست میں ہوتا ہے جب دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان مہینوں میں پاکستان میں شدید گرمی بھی پڑتی ہے البتہ اس بار گرمی کی شدت اپریل ہی میں زیادہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی طلب میں ضافہ ہوا ہے لیکن فی الحال پن بجلی کی پیداوارصرف دو سے ڈھائی ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے جو پانی کی صورتِ حال بہتر ہونے پر نو ہزار میگاواٹ تک جاسکتی ہے۔
سمیع اللہ طارق کا مزید کہنا تھا کہ پن بجلی کی پیداوار کم ہونے کے باعث تھرمل پاور پلانٹس پر بجلی پیدا کرنے کا دباؤ مزید بڑھا ہے اور وہاں ایل این جی کی قلت، کوئلہ کی بلند قیمت ، ورکنگ کیپٹل میں کمی اور تکنیکی خامیوں کے باعث بھی کئی پلانٹس بند ہیں۔
بند پاور پلانٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنیکل خامیوں کی وجہ سے بند پلانٹس کو جلد سے جلد آپریشنلائز کرنا ہوگا جب کہ دوسری جانب توانائی کے شعبے میں دور رس اصلاحات کی کافی عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسمیشن اینڈ لائن لاسز کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کئی بجلی کمپنیوں کی ریکوری انتہائی کم ہے جب کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا عمل بھی کافی عرصے سے رُکا ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کی جاری جنگ کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں کوئلہ اور ایل این جی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ایندھن کی خریداری میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گزشتہ سال کے مقابلے میں ایندھن کی قیمت 15 ارب ڈالرز زائد رہی ہے جو گزشتہ سال کے پہلے نو ماہ کے مقابلے میں دگنی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت میں حال ہی میں وزارتِ خزانہ کا چارج سنبھالنے والے مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت سات ہزار میگاواٹ کے پاور پلانٹس ایندھن کی کمی اور تکنیکی فالٹس کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ بند بجلی گھروں کو جلد از جلد بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور یکم مئی سے ملک بھر میں جاری لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ایک جانب حکومت کو معاشی پہیہ چلانے کے لیے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے چیلنج کا سامنا ہے تو دوسری جانب بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کی خریداری کے لیے کثیر غیر ملکی سرمائے کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان کو پہلے ہی 13 ارب 20 کروڑ ڈالر کے جاری کھاتوں میں خسارے کا سامنا ہے جب کہ ملک کو رواں اور آئندہ سال کل ملا کر 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ کی غیر ملکی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔