پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے عندیہ دیا ہے کہ پیر کو ترکمانستان کے صدر کے دورے کے موقع پر اس وسط ایشیائی ریاست سے قدرتی گیس درآمد کرنے کے چار ملکی مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے ’ٹیپی‘ پر اہم پیش رفت کا اعلان کیا جائے گا۔
اس مجوزہ منصوبے کے تحت تیل و گیس سے مالا مال ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت کو گیس فروخت کی جائے گی اور باور کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اشک آباد اور اسلام آباد کے درمیان ترکمان صدر کے دورے کے موقعے پر اہم سمجھوتوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
اس منصوبے پر اندازاً 7.6 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور امریکہ بھی اس کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایران سے گیس کی درآمد کے لیے مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے کے ڈیزائن اور سروے سے متعلق کام بھی تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ تاہم امریکی رہنما پاکستانی قائدین کو اس منصوبے سے دور رہنے کا مشورہ دیتے آئے ہیں۔
ناقدین کے خیال میں ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی میں حالیہ اضافے کے پیش نظر پاکستان کے لیے اس منصوبے پر پیش رفت بظاہر مشکل دیکھائی دیتی ہے۔
لیکن وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ہر ممکن ذریعے سے توانائی کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قدرتی گیس حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
’’گیس ہمیں جہاں سے بھی ملے ہم جلد از جلد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں ایران پاکستان پائپ لائن بھی آتی ہے اور ٹیپی بھی آتی ہے، اور کل اس (بارے) میں ہم انشاللہ اہم پیش رفت کریں گے۔‘‘
اس سے قبل ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر پیڑولیم عاصم حیسن نے بھی ایران اور خاص طور پر ترکمانستان سے قدرتی گیس کے حصول کے منصوبوں پر اہم پیش رفت کا دعویٰ کرتے ہوئے ترکمان صدر کے دورے کے موقع پر اہم اعلانات کا عندیہ دیا تھا۔
تاہم وزیر پیڑولیم نے اس تاثر کو رد کیا کہ افغانستان میں امن و امن کی خراب صورت حال کے پیش نظر ترکمانستان سے قدرتی گیس کی درآمد کا چار ملکی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں۔ ان کے بقول پاکستان نے اس منصوبے کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنانے کا عزم کر رکھا ہے۔
ترکمنستان کے پاس قدرتی گیس کے دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔
ترکمانستان کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ چار ملکی منصوبے کے تحت 10 کھرب مکعب میٹر گیس آئندہ 30 سالوں تک برآمد کی جاسکے گی اور وہ افغانستان کے راستے اس مقصد کے لیے 1,700 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کے بارے میں پراعتماد ہیں۔
اس گیس پائپ لائن کا ایک بڑا حصہ جنوبی افغانستان سے گزرنا ہے جو طالبان عسکریت پسندوں کا گڑھ مانا جاتا ہے جو اس منصوبے کے راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔