پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علاقائی ممالک سمیت بھارت کا تعاون بھی درکار ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے یہ بات پیر کو قومی اسمبلی میں وقفۂ سوالات کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک بیان میں کہی۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کے حصول کے لیے اپنے عزم پر قائم ہے۔
لیکن، ان کے بقول، یہ صرف پاکستان ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک ازبکستان، تاجکستان، ایران اور چین کے علاوہ بھارت کا بھی تعاون ضروری ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام علاقائی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور چوں کہ بھارت بھی افغانستان میں موجود ہے اس لیے اس مقصد کے لیے بھارت کا تعاون بھی چاہیے ہوگا۔
البتہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ انہیں بھارت سے کس طرح کا تعاون درکار ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان ماضی میں بھارت کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ لیکن، وزیرِ خارجہ کا تازہ بیان پاکستان کے ماضی کے موقف کے برعکس ہے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے ہی کابل میں افغانستان سے متعلق سہ فریقی اجلاس ہونے والا ہے جس میں افغانستان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔
پیر کو اسمبلی میں اپنے خطاب میں شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ افغانوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ہی مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے جس میں ان کے بقول پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں میں امریکہ، افغانستان، پاکستان اور افغان طالبان سب شامل ہیں اور ان سب کی خواہش ہے کہ مل بیٹھ کر گفت و شنید سے بات کو آگے بڑھایا جائے۔
وزیرِ خارجہ نے وزیرِ اعظم عمران خان کے نام لکھے گئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کا ذکر کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ امریکی صدر نے پاکستان سے افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں تعاون کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اس مقصد کے لیے دوحا اور متحدہ عرب امارات میں کچھ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان اس عمل کو آگے بڑھانے میں امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کی مدد کر رہا ہے اور وہ بھی پاکستانی حکام سے مشاورت کر رہے ہیں۔
خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے ہی پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستان کی فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔