پاکستان نے ایک بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل پر پاکستان کے اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پیر کو اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ نے ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے سابق معاونِ خصوصی سید ذوالفقار بخاری نے پاکستانی قیادت کے پیغام رساں کے طور پر گزشتہ سال نومبر میں تل ابیب کا خفیہ دورہ کیا تھا اور اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی ذوالفقار بخاری اس دعوے کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایک بیان میں ان اطلاعات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کا ایسا کوئی دورہ نہیں ہوا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں اس بات کا اشارہ دیا گیا تھا کہ بعض اعلیٰ حکام نے مبینہ طور پر اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سے ان مبینہ ملاقاتوں کے بارے میں حقائق منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ کیا تھا۔
معید یوسف نے ایک ٹوئٹ میں بلاول بھٹو زرداری کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ انہیں یہ جان کر بڑی مایوسی ہوئی کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما نے اسرائیلی عہدے داروں سے میری خفیہ ملاقات کا اشارہ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ تو اسرائیل کا دورہ کیا اور نہ ہی انہوں نے اسرائیلی حکام سے کوئی ملاقات کی ہے۔
معید یوسف نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا اس بارے میں بڑا واضح مؤقف ہے کہ پاکستان فلسطینیوں کے دو ریاستی منصفانہ حل کے حق کے ساتھ کھڑا ہے۔ باقی یہ سب کچھ سازشی مفروضے ہیں۔
اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے سابق معاونِ خصوصی سید ذوالفقار بخاری نے گزشتہ سال نومبر میں اسرائیلی کا دورہ کیا اور پاکستانی قیادت کا پیغام پہنچایا۔
تاہم ذوالفقار بخاری نے ایک ٹوئٹ میں اسرائیلی اخبار کے دعویٰ کو مسترد کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکستانی اخبار کا اسرائیلی اخباری ذرائع کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ میں اسرائیل گیا تھا جب کہ اسرائیل کے اخبار کا پاکستانی ذرائع کےحوالے سے یہ کہنا ہے کہ میں اسرائیل گیا تھا۔
ذوالفقار بخاری کے بقول وہ حیران ہیں کہ ان تصوراتی ذرائع میں پاکستانی ذریعہ کون سا ہے۔
پاکستانی عہدے داروں کی اسرائیلی حکام کے ساتھ ہونے والی مبینہ ملاقاتوں کی خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب متحدہ عرب امارت اور اسرائیل کی تعلقات میں نمایاں بہتری ہوئی ہے۔
’کچھ خارج از امکان نہیں‘
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں پاکستانی حکام کی اسرائیل کے حکام سے ملاقاتوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ پاکستان کا سرکاری مؤقف یہی ہے کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ فلسطین کا معاملہ پاکستانیوں کے لیے جذباتی معاملہ ہے اور کسی بھی حکومت کے لیے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطوں پر راضی ہونا ممکن نہیں ہے۔
SEE ALSO: اسلام آباد فلسطین کے معاملے پر متحرک، اسرائیلی عہدیدار کی پاکستان پر تنقیددوسری جانب بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اسرائیل کےحوالے سے خبروں کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہیں لیکن حریف ممالک کے درمیان بھی بیک ڈور اور خفیہ چینلز کے ذریعے ملاقاتوں کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے دنوں میں سابق سوویت یونین اور امریکہ کےدرمیان ایسے رابطوں کا معمول تھا۔
نجم رفیق کا کہنا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی ایک خاص رائے موجود ہے اس لیے حکومت کے لیے اس کے برخلاف کوئی اقدام کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ گزشتہ سال دسمبر میں ایک رپورٹ میں کسی مسلمان ملک یا اس کی عہدے دار کا نام لیے بغیر دعویٰ کیا تھا کہ ایک بڑے مسلمان ملک کے عہدے دار نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس کی اسلام آباد نے تردید کردی تھی۔