سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے ہفتےکا دن مقرر کیا گیا ہے۔حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ارکانِ قومی اسمبلی کے نمبرز پورے ہیں۔اجلاس سے قبل حکومت کے وزرا کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وہ حزبِ اختلاف میں جانے کے لیے تیار ہیں۔
اس صورتِ حال مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مستقبل کی سیاست کی بقا اسی میں ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر فعال کردار ادا کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے اپنی غلطیوں کا احساس نہیں کیا۔ ان سے سبق نہیں سیکھا اور وہ تصادم کی سیاست پر ہی اکتفا جاری رکھیں گے تو ان کے بقول وہ نہیں سمجھتے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کر سکیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریکِ انصاف قومی اسمبلی سے استعفی دے کر بھی اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ تاہم مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق یہ لازمی نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی سے مستعفی ہوں۔ اور اگر استعفے دے بھی دیتے ہیں تو یہ الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے کہ وہ الیکشن کب کراتے ہیں اور اس حوالے سے وہ حکومت پر زیادہ پریشر نہیں ڈال سکتے۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے سپریم کورٹ اور صدر مملکت کو پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 2014 میں بھی تحریکِ انصاف نے جب اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا تو تحریکِ انصاف کے چند ارکان نے اپنی پارٹی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی روشنی میں اسمبلی بحال تو کردی ہے۔ تاہم ملک کو درپیش چیلنجز اور سیاسی بحران کو حل کرنے کی ذمہ داری دوبارہ سیاسی رہنماؤں پر ہی چھوڑ دی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری نے کہا کہ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی ملک کو درپیش بحرانوں کو حل کرنے کے حوالے سے اہلیت کافی محدود ہے۔ جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست دوبارہ سے تصادم کی جانب بڑھ رہی ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نےقومی اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ جاری کیا تھا۔ اسی فیصلے میں اسپیکر کو بروز ہفتہ اجلاس بلانے اور تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حسن عسکری کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایسا لگتا ہے کہ اب حکومت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ان کی اتحادی جماعتیں بنائیں گی جب کہ اپوزیشن کا کردار تحریکِ انصاف کرے گی۔
نئی حکومت کو در پیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا جن میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان تعلقات،معاشی مسائل سے نمٹنا اور مقدمات کا خاتمہ شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف اور مریم نواز شریف کی دوبارہ سیاست واپسی بھی ایک چیلنج کے طور پر شامل ہے۔
حسن عسکری کے بقول تحریکِ انصاف اس قسم کے اقدامات کی نہ صرف شدید مخالفت کرے گی بلکہ عوامی سطح پر بھی سیاسی فوائد کے حصول کی کوشش کرے گی اور اس قسم کے اقدامات آئندہ تین سے چار ماہ میں متوقع ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض حلقے پاکستان میں سیاسی بحران کا حل نئے انتخابات کو قرار دے رہے ہیں کیوں کہ بظاہر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پاس بھی ملک میں جاری مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو کا کوئی مؤثر ایجنڈہ نظر نہیں آتا جس کے بعد ملک میں مزیدسیاسی کشیدگی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
تاہم حسن عسکری کے نزدیک نئے انتخابات موجودہ سیاسی بحران کو صرف کم کر سکتے ہیں تاہم یہ کوئی حتمی حل نہیں ہے۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن کو خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے علاقوں میں حلقہ بندیاں کرانے کے مسائل درپیش ہے۔ 2018 میں خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقہ جات کو صوبے میں ضم کرنے کے بعد سے الیکشن کمیشن نے تا حال وہاں نئی حلقہ بندیاں نہیں کیں۔