شیراز احمد ایک میڈیا ادارے میں ڈرائیور ہیں اور ان کی تنخواہ 32 ہزار روپے ہے۔ ان کی تنخواہ کا تقریبا 20 فی صد سے بھی زیادہ یعنی ساڑھے چھ ہزار روپے بسوں اور رکشوں کے کرائے میں لگ جاتے ہیں۔
اگر وہ اپنے کام پر پہنچنے کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کریں تو اس سے ان کے اخراجات سات ہزار روپے ماہانہ سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں۔ لیکن منگل کو حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد وہ موٹر سائیکل پر سفر کرنے کے متحمل بھی نہیں رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو بچوں کی فیس، گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل سمیت دیگر اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
حکومت نے منگل کو ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں سات فی صد سے زائد کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں پیٹرول کی نئی قیمت 253 روپے سے بڑھ کر 273 روپے تک جا پہنچی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت بھی 254 سے بڑھ کر 274 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے فنانس ڈویژن نے اپنے نوٹی فکیشن میں کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافے کے باعث کیا گیا ہے۔
حکومت کے مطابق عالمی منڈی میں پیٹرل 89.14 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 97.39 ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں بھی 111.46 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں جو صرف دو ہفتے قبل 96.26 ڈالر تھیں۔
نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ چوں کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا براہ راست تعلق بین الاقوامی مارکیٹ میں ان مصنوعات کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے ہے اس لیے ملک کے اندر قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔
'اضافہ آئی ایم ایف پروگرام کے عین مطابق ہے'
خیال رہے کہ شہباز شریف حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ کیے گئے نئے اسٹینڈ بائی معاہدے میں پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کو رواں مالی سال 60 روپے تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے جو گزشتہ مالی سال میں 55 روپے تھی۔ اس سے حکومت کو مزید 79 ارب روپے جمع کرنے میں مدد ملے گی۔
تجزیہ کار عرفان احمد رؤف کا کہنا ہے کہ اس اضافے کو آئی ایم ایف پروگرام کی تعمیل کے طور دیکھا جانا چاہیے۔ حکومت کے اس اقدام سے لگتا ہے کہ پروگرام جاری رہے گا۔
اُن کے بقول یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت آئندہ چند دنوں میں اپنی آئینی مدت ختم کرنے والی ہے اور ملک میں یہ الیکشن کا سال ہے۔ حکمران سیاسی اتحاد کو اپنی کارکردگی بھی عوام کے سامنے رکھنی ہوتی ہے اور بہرحال حکومت نے یہ ایک مشکل لیکن ضروری فیصلہ کیا ہے۔
عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ
تجزیہ کار اور توانائی امور کے ماہر عبداللہ عمر کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے تیل کی کھپت میں کمی آئی تھی جس سے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گرنے لگیں جس پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے پیداوار کم کر دی جس سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
اُن کے بقول ان قیمتوں میں اضافے کے لیے خام تیل کی سپلائی میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس سے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کے فیصلوں کے تحت تیل کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے آئندہ دو سے تین ماہ میں تیل کی یومیہ پیداوار میں 40 لاکھ بیرل یعنی تقریباً 3 سے 4 فی صد کمی لائی جا رہی ہے۔
اس کا مقصد قیمتوں میں استحکام لانا ہے جو چند ماہ قبل 72 سے 75 امریکی ڈالر فی بیرل تک گر چکی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'فیصلہ ملکی مفاد میں کیا'
دوسری جانب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پچھلے 15 روز میں بہت زیادہ چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے اور ممکنہ کم از کم اضافے کو عوام تک پہنچایا گیا ہے تاکہ اس کا زیادہ بوجھ لوگوں پر نہ پڑے۔
اُن کے بقول پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس پروگرام کے تحت جمع ہونے والی پیٹرولیم لیوی کو کم کر کے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جاتا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت نے ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔