پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹینڈ بائی پروگرام کی نئی قسط کے حصول کے لیے اقتصادی جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں جاری ہیں۔
ایک ہفتے سے جاری ان جائزہ مذاکرات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ماضی کے برعکس آئندہ قسط جلد ملنے کی امید ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے آئی ایم ایف پروگرام کے زیادہ تر اہداف کو مکمل کر رکھا ہے اور جائزہ مذاکرات بہتر انداز میں چل رہے ہیں۔
پاکستان میں اگست میں قائم ہونے والی نگراں حکومت سے قبل اتحادی حکومت کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف سے جاری پرانے قرض پروگرام کی آخری دو اقساط کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا۔
آخر کار وہ پروگرام نامکمل ہی رہا تھا جس کے بعد پاکستان نے رواں سال جولائی میں تین ارب ڈالر کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے نو ماہ کی مدت کا اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے) کیا تھا جس کا پہلا جائزہ رواں ماہ کے پہلے ہفتے سے جاری ہے۔
اس معاہدے کے بعد پاکستان نے اضافی فنڈنگ کے لیے کوششیں تیز کی تھی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے اقدامات اٹھائے تھے۔
نگراں وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ قرض پروگرام کے تحت تمام اہداف پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور پہلے اقتصادی جائزے کی آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔
اقتصادی جائزہ مکمل ہونے پر پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط حاصل ہو گی جب کہ فروری میں دوسرا جائزہ مکمل ہونے پر باقی 1.2 ارب ڈالر جاری کیے جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت نے جاری مذاکرات میں آئی ایم ایف کو بتایا ہے کہ ایکسٹرنل فنانس گیپ کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے پورا کیا جائے گا اور اس ضمن میں دوست ممالک سے ہونے والی بات چیت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اگرچہ آئی ایم ایف کے زیادہ تر اہداف کو مکمل کرلیا ہے تاہم ایکسٹرنل فنانس گیپ کے لیے حکومت دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔
معاشی امور کے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ اسٹینڈ بائی پروگرام کے اہداف مڈٹرم پروگرام کی طرح سخت نہیں ہوتے ہیں اور اس جاری پروگرام کے زیادہ تر اہداف کو حکومت نے مکمل کر لیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پرائمری بیلنس سرپلس ہے، توانائی کے گردشی قرضوں کو کم کیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو صرف بیرونی فنانسنگ گیپ کو پورا کرنا ہے جو کہ ساڑھے چار ارب ڈالر کے قریب ہو گا۔
مہتاب حیدر نے بتایا کہ حکومت کا آئی ایم ایف کے سامنے یہ مؤقف ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہذا بیرونی فنانس گیپ ماضی کے تخمینوں سے کم ہو گیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے اسے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہو گا۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف چاہے گا کہ اس بیرونی مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے پاکستان دوست ممالک یا مالیاتی اداروں سے رضامندی لائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یقین دہانی تو موجود ہے کہ دوست ممالک اسے فنڈز مہیا کریں گے تاہم اس پر عمل درآمد کی رفتار کافی سست ہے۔
مہتاب حیدر کے بقول پاکستان کا آئی ایم ایف سے مطالبہ ہو گا کہ وہ جائزہ اجلاس کو مکمل کر کے آئندہ قسط جاری کرے تاکہ پاکستان کی معیشت پر اعتماد بحال ہو۔ ایسے میں دوست ممالک اور مالیاتی اداروں سے بیرونی مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے درکار مالیات حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے ستمبر کے دوران بورڈ دو ہزار 41 ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب رہا ہے جو ہدف سے تین فی صد زیادہ ہے۔
اسی طرح پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی گزشتہ مالی سال کی اسی سہ ماہی سے کم رہا ہے۔ تاہم یہ جی ڈی پی کا اب بھی 0.9 فی صد ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ ملک کے تمام صوبوں کی جانب سے اس سہ ماہی میں کیش سرپلس رہنا بتایا گیا ہے۔
'ایکسٹرنل فنانس گیپ کو پورا کرنا ابھی باقی ہے'
ماہر معیشت فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے اس معاہدے میں پانچ بنیادی مطالبے تھے جن میں سے چار پر حکومت عمل کر چکی ہے البتہ ایکسٹرنل فنانس گیپ کو پورا کرنا ابھی باقی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جولائی سے ستمبر کی سہ ماہی میں بجٹ سرپلس رہا ہے، ڈالر اور روپے میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق کم ہو گیا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب معاملہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا ہے جو کہ 28 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں جن میں سے ساڑھے چار ارب ڈالرز کا حصول باقی ہے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے حکومت کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ وہ یورو بانڈ کا اجرا نہیں کر پائے گی اور شرح سود زیادہ ہونے کے سبب کمرشل بینکوں سے تین ارب ڈالر کا حصول بھی مشکل ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ان حالات میں حکومت بیرونی مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے چین اور خلیجی دوست ممالک سے بات چیت کر رہی ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری کا انحصار عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے طے کردہ اقتصادی ایڈجسٹمنٹ پروگرام پر من و عن عمل کرنے میں قرار دیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران عام انتخابات سے ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔