ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سینئیر عہدیدار کامران عارف کہتے ہیں حکام کے اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں احساس عدم تحفظ اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد —
انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں شدت پسندوں کی کارروائیاں بدستور جاری رہیں اور تقریباً 1600 دہشت گردی کے حملوں میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم دو ہزار تین سو رہی۔
جمعرات کو جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی کا نا ہونا اور سیاسی جماعتوں میں اس سے متعلق عدم اتفاق شدت پسندی کے خلاف جنگ جیتنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ رپورٹ میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے مذہبی اقلیتوں پر تشدد یا انہیں ہراساں کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے حکومتی اداروں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔
ایچ آر سی پی کے سینئیر عہدیدار کامران عارف کہتے ہیں حکام کے اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں احساس عدم تحفظ اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔
’’عدم برداشت ایک یا دو سال میں نہیں بڑھی بلکہ کافی عرصے سے اس طرف جارہی ہے اور اس ایک وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے اس معاملے کو نا ہی سنجیدگی سے لیا اور نا ہی اسکے مکمل طور پر حل کے لیے اقدامات کیے گئے۔‘‘
ایچ آر سی پی کے اعدا و شمار کے مطابق 2011 کی نسبت گزشتہ سال قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں کمی ہوئی اور 48 حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 240 سے 400 تک رہی۔
رپورٹ میں پارلیمنٹ کی طرف سے انتخابی معاملات میں ہونے والی آئینی ترامیم کو سراہا گیا تاہم اس کے مطابق اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے پاکستان میں نفاذ کو آسان بنانے کے لیے قانون سازی نا کی گئی۔ گزشتہ سال 242 افراد کو موت کی سزائیں سنائی گئیں جو کہ ایچ آر سی پی کی سابق چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر کے مطابق انتہائی تشویش ناک بات ہے۔
’’اگر آپ طاقتور اور دولت مند ہیں تو آپ کو پیسے دیگر قتل کی معافی مل سکتی ہے اور جب غریب کی بات آتی ہے تو مذہب کا نام لے آتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مذہب کا اس طرح استعمال نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا حکومت سے مطالبہ رہا ہے کہ ملک سے موت کی سزا کو ختم کرکے اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے جبکہ مذہبی حلقے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
سن 2012 میں توہین مذہب کے متنازع قانون میں ترمیم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اگرچہ اس کے غلط استعمال کے متعدد واقعات سامنے آئے۔
رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور سپریم کورٹ میں اس بارے میں سماعت بدستور جاری رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012 میں ایچ آر سی پی جبری گمشدگی کے صرف 87 واقعات کی تصدیق کر سکا اور اب ملک میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ’’بچوں کے حقوق کی پامالی ہماری توقعات سے بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ ان کی گمشدگی میں یا تو وہ بردہ فروش ملوث ہیں یا جو ہمیں اشارے ملے ہیں کہ یہاں بچوں کے جسم فروشی کا کاروبار بھی ہو رہا ہے۔‘‘
حکام کا کہنا ہے کہ تمام تر معاشی اور معاشرتی مشکلات کے باوجود انسانی حقوق سے متعلق اقدامات کیے گئے جن میں بچوں کی تعلیم، ملک میں شرح خواندگی بڑھانے اور عورتوں پر تشدد کو روکنے سے متعلق قوانین شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قوانین اور ان کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی بھی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اشد ضروری ہے۔
جمعرات کو جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی کا نا ہونا اور سیاسی جماعتوں میں اس سے متعلق عدم اتفاق شدت پسندی کے خلاف جنگ جیتنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ رپورٹ میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے مذہبی اقلیتوں پر تشدد یا انہیں ہراساں کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے حکومتی اداروں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔
ایچ آر سی پی کے سینئیر عہدیدار کامران عارف کہتے ہیں حکام کے اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں احساس عدم تحفظ اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔
’’عدم برداشت ایک یا دو سال میں نہیں بڑھی بلکہ کافی عرصے سے اس طرف جارہی ہے اور اس ایک وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے اس معاملے کو نا ہی سنجیدگی سے لیا اور نا ہی اسکے مکمل طور پر حل کے لیے اقدامات کیے گئے۔‘‘
ایچ آر سی پی کے اعدا و شمار کے مطابق 2011 کی نسبت گزشتہ سال قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں کمی ہوئی اور 48 حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 240 سے 400 تک رہی۔
رپورٹ میں پارلیمنٹ کی طرف سے انتخابی معاملات میں ہونے والی آئینی ترامیم کو سراہا گیا تاہم اس کے مطابق اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے پاکستان میں نفاذ کو آسان بنانے کے لیے قانون سازی نا کی گئی۔ گزشتہ سال 242 افراد کو موت کی سزائیں سنائی گئیں جو کہ ایچ آر سی پی کی سابق چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر کے مطابق انتہائی تشویش ناک بات ہے۔
’’اگر آپ طاقتور اور دولت مند ہیں تو آپ کو پیسے دیگر قتل کی معافی مل سکتی ہے اور جب غریب کی بات آتی ہے تو مذہب کا نام لے آتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مذہب کا اس طرح استعمال نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنوں کا حکومت سے مطالبہ رہا ہے کہ ملک سے موت کی سزا کو ختم کرکے اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے جبکہ مذہبی حلقے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
سن 2012 میں توہین مذہب کے متنازع قانون میں ترمیم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اگرچہ اس کے غلط استعمال کے متعدد واقعات سامنے آئے۔
رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور سپریم کورٹ میں اس بارے میں سماعت بدستور جاری رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012 میں ایچ آر سی پی جبری گمشدگی کے صرف 87 واقعات کی تصدیق کر سکا اور اب ملک میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ’’بچوں کے حقوق کی پامالی ہماری توقعات سے بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ ان کی گمشدگی میں یا تو وہ بردہ فروش ملوث ہیں یا جو ہمیں اشارے ملے ہیں کہ یہاں بچوں کے جسم فروشی کا کاروبار بھی ہو رہا ہے۔‘‘
حکام کا کہنا ہے کہ تمام تر معاشی اور معاشرتی مشکلات کے باوجود انسانی حقوق سے متعلق اقدامات کیے گئے جن میں بچوں کی تعلیم، ملک میں شرح خواندگی بڑھانے اور عورتوں پر تشدد کو روکنے سے متعلق قوانین شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قوانین اور ان کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی بھی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اشد ضروری ہے۔