لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکیں تاریخ کے آئینے میں

احتجاجی ریلیاں

اِن کے باعث کوئی انقلاب تو نہیں آسکا، البتہ، ماضی میں لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکوں نے ملکی سیاسی افق پر کئی گہرے اثرات ضرور مرتب کئے
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکوں کا معاملہ اس وقت زوروں پر ہے۔ منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری اور ایم کیو ایم کی طرف سے 14 جنوری کو ’سفر انقلاب‘ کے نام سے لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔

ملکی تاریخ میں لانگ مارچ کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان کی سیاست احتجاجی تحریکوں اور لانگ مارچ سے بھری پڑی ہے۔

اس طرح، پاکستان کی سیاست میں لانگ مارچ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اس کے باعث کوئی انقلاب تو برپہ نہیں ہوا، البتہ، ماضی میں لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکوں نے ملکی سیاسی افق پرکئی گہرے اثرات مرتب کئے۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ 1958ء میں کیا گیا۔

خان عبدالقیوم خان نے یہ تحریکیں اسکندر مرزا کے حکومتی ادوار میں چلائیں۔

اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کا اقتدار فوجی جرنیل ایوب خان کے ہاتھ میں چلا گیا اور پاکستان میں فوجی حکومت رائج ہوگئی۔


پاکستان کی تاریخ کی دوسری احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ملک میں فوجی حکومت آئی۔ سنہ 1968 میں جنرل (ر) ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک چلی۔ اس بار بھی پاکستانی اقتدار فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا اور جنرل یحیٰ خان نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔

پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ جمہوری دورِ حکومت میں احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کیا گیا۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی، اور اس طرح، سنہ 1977 میں ملک کا اقتدار ایک بار پھر فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق نے سنبھال لیا۔

بعد ازاں، فوجی دور حکومت کے دوران جمہوریت کی بحالی کیلئے ایم آر ڈی کی تحریک چلائی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنہ1985 میں محمد خان جونیجو کو بغیر سیاسی انتخاب کے ملک کا وزیراعظم بنادیاگیا۔

پاکستان کی سیاست میں سنہ1992 کا سال بھی احتجاجی تحریکیں لے کر آیا۔

بینظیر بھٹو کی جماعت نے اُس وقت کی نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور سنہ 1988 میں بینظیر بھٹو کو ملک کا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ تاہم، 20 ماہ کے اندر اندر سابق صدر غلام اسحاق خان نے ملک میں انتخابات کا اعلان کردیا۔


سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔ بعدازاں، عوام اور سیاستدانوں کی جانب سے اُن کے خلاف کوئی مخالف تحریک سامنے نہیں آئی، مگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کےبعد وکلا کی احتجاجی تحریکوں نے ملک میں ایک نیا باب رقم کیا اور مشرف دور کا اختتام ہوا۔

بعد ازاں، سنہ 2008 میں نیا جمہوری نظام تشکیل دیا گیا اور پی پی پی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ تاہم، ججوں کی بحالی کی تحریک میں نواز شریف پیش پیش رہے۔

گزشتہ سال 2012 ء میں بھی ’دفاع پاکستان کونسل‘ کی جانب سے نیٹو سپلائی روکنے کیلئے لانگ مارچ کیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان کی جانب امن مارچ کیا تھا جِس سے ملکی سطح پر کافی ہلچل رہی۔