پاکستان میں فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ہر لاپتا فرد کی گمشدگی کو ریاست سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ہمارے دل لاپتا افراد کے اہل خانہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لاپتا افراد کے مسئلے کے لیے جی ایچ کیو میں ایک خصوصی سیل قائم کر دیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور سے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ نے ملاقات کی، جس میں لاپتا افراد سے متعلق بات چیت کی گئی۔
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ حکومت اور سیکورٹی فورسز لاپتا افراد کے معاملے پر کام کر رہی ہیں، اور اس سلسلے میں لاپتا افراد سے متعلق جوڈیشل کمشن دن رات کوشاں ہے۔ آرمی چیف نے اس مسئلے کے حل کے لیے جی ایچ کیو میں ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آرکا کہنا تھا کہ بہت سے لاپتا افراد کالعدم ٹی ٹی پی کا حصہ ہیں اور بعض لاپتا افراد افغانستان میں یا دہشت گردوں سے لڑائی میں مارے گئے۔ ریاست کے پاس موجود افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی جاری ہے۔
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کو ریاست مخالف قوتوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ انہوں نے لاپتا افراد کی تلاش سے متعلق ریاست اور فورسز کی کوششوں کو بھی سراہا۔
آمنہ مسعود جنجوعہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی ملاقات کی ایک ویڈیو بھی ریلیز کی گئی ہے، جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کہتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں ہم نے مشکل حالات کا سامنا کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسنگ پرسن کا معاملہ سامنے آیا اور اب ان کی تعداد بہت گھٹ چکی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
آمنہ مسعود کا کہنا تھا کہ ہم اپنے پلیٹ فارم کو کسی ملک دشمن ایجنڈے کے لیے استعمال ہونے نہیں دیں گے اور اپنے قومی اداروں پر بھروسہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کروائیں گے۔
لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمشن کے اعداد و شمار کے مطابق 31 مئی 2019 کو لاپتا افراد کی کل تعداد 2277 تھی۔ مئی میں شامل ہونے والے کیسز کی تعداد 73 تھی۔ اپریل 2019 تک کمشن کو کل 6051 کیسز ملے جن میں سے 3847 کیسز حل کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں لاپتا افراد کے معاملے میں ایک عرصے سے آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ سابق فاٹا اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ شہروں میں سے بھی کئی افراد کو ریاستی اداروں کی طرف سے غائب کیے جانے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں، لیکن موجودہ حکومت اور فوج کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر مسنگ پرسن اپنے گھروں میں واپس آ چکے ہیں۔
آمنہ مسعود جنجوعہ لاپتا افراد کے کیسز میں سپریم کورٹ میں بھی آتی رہی ہیں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب کئی برسوں تک احتجاج کرتی رہی ہیں۔