پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن میں نرمی کے آغاز کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا پہلا اجلاس شروع ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا یہ غیر روایتی اجلاس کرونا وائرس کے اثرات اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر بحث کے لیے بلایا گیا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اسپیکر اسد قیصر کی عدم موجودگی میں اجلاس کی صدارت کی، جو کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث اپنے آبائی علاقے صوابی میں قرنطینہ میں ہیں۔
قومی اسمبلی کے دو دیگر اراکین اور سیکٹریریٹ اسٹاف کے متعدد افراد بھی اس وبا میں مبتلا پائے گئے ہیں۔
حکومت کی خواہش تھی کہ موجودہ حالات میں قومی اسمبلی کا ورچوئل اجلاس بلایا جائے، تاہم حزب اختلاف نے یہ کہہ کر اتفاق نہیں کیا کہ قواعد میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ اس غیر معمولی اجلاس میں نہ تو قانون سازی ہو گی، نہ سوالات پوچھے جائیں گے اور نہ ہی کوئی توجہ دلاؤ نوٹس یا تحریک التوا پیش کی جائے گی۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ اس اجلاس میں کورم مکمل نہ ہونے کی نشاندہی بھی نہیں کی جائے گی۔
آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کی کاروائی چلانے کے لئے 342 کے ایوان میں کم از کم ایک چوتھائی یعنی 86 قانون سازوں کی اجلاس میں موجودگی لازم ہے۔
ہر ایک دن کے وقفے کے ساتھ یہ اجلاس 15 مئی تک جاری رہے گا۔
قائد ایوان, وزیر اعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف دونوں ہی اس غیر روایتی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے اس وبا سے لڑنے کے لیے اپنے صحت کے نظام کی استعداد کو بڑھایا ہے اور اب روزانہ کی بنیاد پر 20 ہزار کرونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ آنے والے دنوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا جو کہ تاحال اندازوں سے کافی کم رہا ہے۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس کا آغاز منگل سے ہو گا۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی سربراہ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ حکومت نے کرونا وائرس سے بچاؤ کی حکمت عملی پارلیمان کے سامنے نہیں رکھی۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب ملک میں صرف متاثرہ افراد تھے تو لاک ڈاؤن کر دیا گیا اور جب اموات چھ سو سے زائد ہو چکی ہیں تو اسے اٹھایا جا رہا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت ہر سطح پر ابہام کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ مشکل معاشی صورت حال کے باوجود اگر چار سے چھ ہفتے مکمل لاک ڈاؤن کر لیا جاتا تو آج حکومتی رہنما اس وبا میں اضافے کی باتیں نہ کر رہے ہوتے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے وزیر اعظم آغاز سے ابہام کا شکار ہیں۔
انہوں نے وزیر اعظم کی ایوان میں عدم موجودگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان کو قیادت کی ضرورت ہوتی ہے تو وزیر اعظم عمران خان ملک کے وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہوتے، چاہے وہ معاشی معاملات ہوں، کشمیر کا مسئلہ ہو یا اب کورونا کا مسئلہ ہے۔
حکومت نے 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کرتے ہوئے کاروبار کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ چار ہفتوں میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے۔
ان نرمیوں کے نتیجے میں ملک میں زیادہ تر کاروبار بحال ہو چکے ہیں۔ تاہم تعلیمی ادارے اور (پبلک ٹرانسپورٹ) تاحال بند ہے۔
ملک میں کرونا وائرس کے آغاز پر قومی سلامتی کمیٹی نے 13 مارچ کو لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تھا۔
حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے کاروبار بحال کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ملک میں وائرس سے متاثرہ افراد اور ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک میں 208 افراد ہلاک جب کہ 10873 نئے مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔
مجموعی طور پر اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ 667 اموات ہو چکی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے 7 مئی کو اپنے ٹی وی بیان میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کاروباری سرگرمیوں میں نرمی اس لئے کی جا رہی ہے کیونکہ ملک کا غریب لاک ڈاؤن میں زندہ نہیں رہ سکتا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود نے قومی اسمبلی میں کہا کہ ہمارے لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کے فیصلے پر تنقید کی جاتی ہے, اگر ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اس کا مقابلہ نہیں کر سکی تو پاکستان کیسے کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کرونا وائرس کے ساتھ بھوک و افلاس کا بھی مقابلہ کرنا ہے اور اگر لاک ڈاون برقرار رکھا جاتا تو 71 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے۔
پاکستان کی فوج نے اتوار کو بتایا کہ اس کا پہلا افسر اس وبا سے کے باعث جان کی بازی ہار گیا ہے۔ میجر محمد اصغر پاکستان اور افغانستان کی سرحدی گزرگاہ طورخم پر کرونا کی سکریننگ کی نگرانی کے لیے تعینات تھے۔