نو برس قبل امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جس میں پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم بین الاقوامی افواج کو آغاز سے ہی پاکستان سے شکوہ رہا ہے کہ وہ افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں موجود شدت پسندوں کے خلاف ہر ممکن کارروائی نہیں کر رہا اور صرف ان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو خود پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
مغربی ممالک کا ماننا ہے کہ قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان میں القاعدہ اور افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے متعدد ٹھکانے موجود ہیں جن کو افغانستان میں تعینات نیٹو افواج پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی جانب سے متعدد مرتبہ کیے گئے مطالبے کے بعد بھی پاکستانی سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے ، جب کہ امریکہ یہاں موجود مشتبہ اہداف کو اپنے بغیر پائلٹ کے طیاروں یا ڈرونز کے ذریعے باقاعدگی سے نشانہ بناتا رہا ہے اور شدت پسندوں کے کئی اہم رہنماؤں سمیت بیسیوں جنگجوؤں کو ہلاک کر چکا ہے۔
لیکن پچھلے ایک ہفتے کے دوران نیٹو کی فوجی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے جس کا مقصد بھی بظاہر پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ عسکریت پسندوں کو کسی قسم کی رعایت نہ دے۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے کم از کم تین بار پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر اس کے بقول نیٹو افواج پر حملے کرنے والے مسلح افراد کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم تازہ ترین کارروائی میں پاکستان کا کہنا ہے کہ سرحدی چوکی پر تعینات اس کے تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ نیٹو کے مطابق اس کے ہیلی کاپٹر نے اپنے دفاع میں اس وقت کارروائی کی جب اس پر زمین سے فائرنگ کی گئی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں سے ناصرف پاکستان اور اتحادی افواج کے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ نیٹو کی حالیہ کارروائیوں کے خلاف پاکستان کی پارلیمنٹ سمیت تمام سیاسی اور سماجی حلقوں میں مذمت کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں نیٹو حملوں پر حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی علاقائی حدود کی خلاف ورزی کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتا اور اگر آئندہ ایسے واقعات پیش آئے تو پاکستان ”دیگر اقدامات“ پر غور کر سکتا ہے، تاہم انھوں نے اِن کی وضاحت نہیں کی۔
سینٹ میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ق کے سینیٹر وسیم سجاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نیٹو کے فضائی حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور وقار پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس سے یقینا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوں گے جب کہ افغانستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی کارروائیاں بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
وسیم سجاد نے کہا کہ ایک طرف امریکہ پاکستانی عوام کے دل جیتنے کی کوشش کررہا ہے اور اس سلسلے میں اُس نے کچھ قابل تحسین اقدام بھی کیے ہیں جن میں خاص طور پر حالیہ سیلاب میں امدادی کاموں میں امریکہ کا بڑھ چڑ ھ کر حصہ لینا ہے۔ ”لیکن دوسری طرف امریکہ ایسے حملے شروع کردیتا ہے اور ایسی پالیسیوں پر عمل پیر ا ہو جاتا ہے جس سے عوام وہ تمام چیزیں بھول جائیں گے جو امریکہ نے پاکستان کے لیے کی ہیں یا سیلاب میں امداد دی ہے اور سرفہرست یہ ہوگا کہ امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری، آزادی اور وقار پر حملہ کیا ہے“۔
مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ نیٹو کی طرح پاکستان بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے اور کسی اتحادی پر اس طرح کے حملے جائز نہیں ۔ اُنھوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب میں امریکہ امداد دینے والے اہم ملک کے طور پر سامنے آیا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے ستائش پیدا ہوگئی تھی۔” لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہمیں روٹی دو،پیسہ دو اور ہماری غیرت کو للکارو اور ہماری بے عزتی کرو“۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام کا بھی کہنا ہے کہ حالیہ سرحدی خلاف ورزیوں سے پاکستان میں امریکہ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں دو ماہ قبل آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد امریکہ نے پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی امداد دینے کے علاوہ امدادی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے تیس کے قریب ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیے ہیں۔
ادھر پاکستان کے قبائلی علاقے کرم میں ایک روز قبل نیٹو کے فضائی حملے میں تین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے راستے افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کی رسد کی ترسیل جمعے کو دوسرے روز بھی معطل ہے۔
امریکی اور نیٹو افواج کے استعمال میں آنے والے سامان اور تیل کا تین چوتھائی حصہ ٹرکوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ سے طورخم اور چمن کے راستے افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ گو کہ اس سامان کی ترسیل کے لیے وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی استعمال کیا جا تا ہے لیکن یہ انتہائی مہنگا
پڑتا ہے۔
واشنگٹن میں ایک کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے امید ظاہر کی کہ طورخم کے راستے نیٹو افواج کے لیے سامان کی ترسیل جلد بحال ہوجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ لمبے عرصے تک رسد بند رہنے سے علاقے کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
گو کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ سامان کی ترسیل احتجاجاً بند کی گئی لیکن حکومت کا موقف ہے کہ اقدام سکیورٹی خدشات کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ عسکریت پسند نیٹو کے سامان سے لدے ٹرکوں پر باقاعدگی سے حملے کرتے رہتے ہیں جن میں سے بیشتر شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ ، اس سے ملحقہ قبائلی علاقے اور جنوب مشرقی صوبہ بلوچستان میں کیے جاتے ہیں۔ جمعہ کے روز بھی صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں نیٹو افواج کے لیے تیل لے جانے والے آئل ٹینکروں پر حملہ کرکے دو درجن سے زائد ٹینکر تباہ کر دیے گئے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں اور مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے بعد اب نیٹو کی حالیہ کارروائیوں سے صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے جب کہ شدت پسند ان واقعات کو اپنے مفاد میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔