پاکستان کی ایک بڑی مذہبی جماعت نے خبردار کیا ہے کہ اگر پارلیمان میں اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے نیٹو سپلائی لائنز کو بحال کیا تو ان قافلوں کو افغانستان جانے سے روکنے کے لیے ہرممکن احتجاجی اقدامات کیے جائیں گے۔
جمیعت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اتوار کو پشاور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اتحاد کا ایسا کوئی فیصلہ بھی پارلیمان کا فیصلہ تصور نہیں کیا جائے گا۔
’’اگر حکومت نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر سپلائی لائنز بحال کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اور نیٹو کے کنٹینروں کا ہم خود راستہ روکیں گے۔‘‘
اُنھوں نے یہ بیان پاکستانی پارلیمان میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اشتراک عمل کی سمت کا از سر نو تعین کرنے کی سفارشات پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں باضابطہ بحث شروع ہونے سے ایک روز قبل دیا ہے۔
اُدھر طالبان عسکریت پسندوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیٹو سپلائی لائن بحال کی گئی تو وہ اراکین پارلیمان کو حملوں کا نشانہ بنائیں گے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے فوری طور پر طالبان کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے جو رائٹرز نیوز ایجنسی نے جاری کیا ہے۔
پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا مرتب کردہ یہ مسودہ گزشتہ ہفتے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا اور اس کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد سے حزب اختلاف یہ الزام لگا رہی ہے کہ پارلیمانی عمل سے قطع نظر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نیٹو کی سپلائی لائن بحال کرنا چاہتی ہے۔
حزب اختلاف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات صرف اور صرف حکومت کے موقف کو ظاہر کرتی ہیں۔
ایک روز قبل نواز شریف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) اور پارلیمان میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے مشترکہ طور پر اس فیصلے کا اعلان کیا تھا کہ پارلیمان میں سفارشات پر بحث کے دوران حزب اختلاف ایک مشترکہ موقف اپنائے گی۔
لیکن وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اتوار کو ایک بیان میں ان خدشات اور تحفظات کو رد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات بشمول نیٹو سپلائی لائن کی بحالی پر اتفاق رائے کے ساتھ ہی آگے بڑھے گی۔
جنوبی کوریا میں جوہری سلامتی سے متعلق سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے روانگی سے قبل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ کمیٹی کا مسودہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا۔
’’پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات صرف حکومت کی نہیں ہیں وہ تمام جماعتوں کی سفارشات ہیں بشمول حزب اختلاف کے جن کے رہنماؤں کے دستخط (بھی موجود) ہیں۔ تو اس لیے وہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم (پارلیمانی عمل کو) بُلڈوز کریں گے۔‘‘
پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات میں نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کی صورت میں رسد سے لدے ٹرکوں پر بھاری محصولات عائد کرنے کے علاوہ 50 فیصد ساز و سامان کی ریل گاڑیوں کے ذریعے ترسیل کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
بظاہر مسودے کی یہی شقیں حکومت پر تنقید کی وجہ بنی ہیں۔ لیکن اس سے قبل وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی واضح کر چکی ہیں کہ اگر حکومت کو پارلیمانی اتفاق رائے کے بغیر ہی نیٹو کی سپلائی لائن بحال کرنا ہوتی تو اس تمام معاملے کو بحث اور منظوری کے لیے ایوان میں پیش نا کیا جاتا۔
مزید برآں پارلیمان کے سامنے پیش کی گئی سفارشات میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ سلالہ میں نیٹو کے حملے پر امریکی سے غیر مشروط معافی طلب کرے، جب کہ اس مہلک کارروائی کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی عسکری حکام نے کسی امریکی اہلکار کے خلاف انضباطی کارروائی نا کرنے کا عندیہ دیا ہے کیوں کہ اُن کے بقول تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ اپنے دفاع میں کی گئی ایک کارروائی تھی تاہم پاکستانی فوج اپنی تحقیقات میں امریکہ کے اس موقف کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔