سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد کے خلاف دی جانے والی رولنگ پر ازخود نوٹس اور سیاسی جماعتوں کے وکلا کی درخواستوں پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ سماعت میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس ادارے کے سربراہ سے ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے۔ دوسری جانب عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہے ہیں جب کہ معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
’جو ہوا اس کو سویلین مارشل لا کہا جا سکتا ہے‘
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما رضا ربانی نے دلائل دیتے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ ہے۔ جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا۔ ان کے سامنے اس خط کے بارے میں اورارکانِ پارلیمان کے حوالے سے کوئی عدالتی حکم تھا اور نہ ہی سازش کی کوئی تحقیقاتی رپورٹ تھی۔ کیا اسپیکر عدالتی احکامات کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے؟ انہوں نے تحریری رولنگ دے کر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیاْ یہ رولنگ آئین کے خلاف ہے۔
دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیرِ اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیرِ اعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدرِ مملکت از خود بھی وزیرِ اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیرِ اعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے۔ جب تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے۔
آئین کا حوالہ دیتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ اسپیکر کارروائی چلانے کے لیے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہو گا۔ آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل پانچ کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کر دیا۔ اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
رضا ربانی نے دلائل مکمل کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے نکات اور پاکستان کے سفیر کا خط منگوایا جائے۔ عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرے۔
’آئین کو قواعد کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جا سکتا‘
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رول 37 کے تحت 31 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی۔ لیکن قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی۔ تین اپریل کو تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ وزیرِ اعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیرِ اعظم رہیں۔
جسٹس منیب اختر نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ قواعد میں ہے آئین میں نہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقۂ کار اسمبلی قواعد میں ہے۔ ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے۔ اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟
اس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی۔ مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔ ڈپٹی اسپیکر کو تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین کو قواعد کے ذریعے غیر مؤثر نہیں کیا جا سکتا۔ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت قواعد میں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟
وکیل مسلم لیگ(ن) نے جواب دیا کہ غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ریاست اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ بلکہ صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتے۔
’حساس ادارے کے سربراہ سے ان کیمرا بریفنگ لی جاسکتی ہے‘
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس ادارے کے سربراہ سے چیمبر میں یا ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کو نگران وزیرِ اعظم بنانا عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کو نگران وزیرِ اعظم بنانے کی تجویز دی ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ رولنگ کالعدم ہوئی تو اسمبلی کی تحلیل بھی ختم ہو جائے گی۔
پنجاب اسمبلی کی کارروائی کا ذکر
مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا مؤقف بھی سنا جائے۔ امکان ہے کہ پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ کا الیکشن شاید جمعرات کو بھی نہ ہو۔ 40 اراکین کو معطل کرتے ہوئے ووٹنگ سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت کو آگاہ کیا کہ اعظم نذیر تارڑ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ تین اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈےکے لیے طلب ہوئی تھی وہ ہونی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ اتنا بتا دیں کل پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوگا یا نہیں؟
اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کریں گے۔ کل پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے۔ نئے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اس کی عدالت تحقیقات کرائے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کل سماعت کے دوران پنجاب اسمبلی کے حوالے سے اپ ڈیٹ لیں گے۔
’تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں اسپیکر کا کوئی کردار نہیں‘
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہے ہیں اور معاملہ عدالت کے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
اس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ بار کے وکیل عثمان منصور نے کہا کہ کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں اسپیکر کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ سیکریٹری اسمبلی اور عملہ گنتی جب کہ اسپیکر اعلان کرتا ہے۔ اسپیکر کا کردار تو عام قانون سازی میں ہوتا ہے جہاں اراکین کی آواز سے اکثریت کا فیصلہ ہو۔
سندھ بار کونسل کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے بھی کہا کہ اسپیکر کے پاس اختیار نہیں تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرتے۔ اسپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے مطابق پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے وکیل امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم ہی نہیں ہیں تو ان کی نمائندگی کیسے کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ کوشش ہے کہ بدھ کو فیصلہ سنا دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی تھی اور نگران حکومت بن چکی تھی۔ عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت میں اپوزیشن کے وکلا کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں اور اب پاکستان تحریک انصاف، اٹارنی جنرل، اسپیکر اور صدر کے وکیل دلائل دیں گے۔