ساڑھے تین سال قبل جب عمران خان نے ملک کے 30 ویں وزیرِ اعظم کے طور پر عہدہ سنبھالا تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کریں گے۔ تاہم اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد وہ بھی بحیثیت وزیرِ اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
سیاسی مبصرین اس کی وجہ سیاسی رہنماؤں کی اپنی غلطیوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے بعض اداروں کی مداخلت کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ بار بار دخل اندازی کے سبب سیاسی جماعتیں اور ادارے اس طرح سے پختہ اور بالغ نظر نہیں ہوتے جس طرح سے انہیں ہونا چاہیے۔
حالیہ سیاسی بحران پر بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماضی میں دخل اندازی کی مثالیں کافی واضح رہی ہیں البتہ موجودہ صورتِ حال میں ریاستی اداروں کی دخل اندازی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کی فوج کےشعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آ ر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا تھا کہ پاکستان کی فوج کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بھی فوج کے 'نیوٹرل' یعنی غیر جانب دار ہونے پر متفق دکھائی دیتی ہیں۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ مداخلت کی باتیں اتنی جلدی نظر نہیں آتیں۔ یہ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی معلوم ہو گا کہ مداخلت ہوئی تھی یا نہیں اور اگر مداخلت ہوئی تھی تو کس حد تک ہوئی تھی؟
پاکستان کے 1973 کے آئین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری نظام کو پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ریاستی اداروں کی بار بار مداخلت کی وجہ سے سیاسی جماعتیں میچور ہوئی ہیں نہ سیاسی نظام۔
بعض مبصرین کی نظر میں قیامِ پاکستان کے فوری بعد ملک کو سیکیورٹی سے متعلق مسائل کا سامنا تھا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کی رقوم کو روک لیا تھا، پانی روکنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں اور پاکستان کے جلد یا بدیر ٹوٹ جانے کے بارے میں پروپیگنڈا کرنے کے باعث ملک شروع دن سے ہی سیکیورٹی اسٹیٹ بنا رہا جس کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات ابتدا ہی سے گھمبیر رہے۔
پاکستان کے حالیہ سیاسی اور آٗئینی بحران پر بات کرتے ہوئےسینئر صحافی اور سیاسی مبصر عامر متین کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جمہوری اداروں کو پنپنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر پاکستان کی صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے جمہوری اداروں کو کبھی بھی پنپنے کا وقت نہیں دیا گیا بلکہ ہمیشہ ان کو دباؤ ہی کا سامنا رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر متین نے کہا کہ جب کبھی بھی جمہوری اداروں نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تو ملک مارشل لا کی نظر ہوا۔ عامر متین کے مطابق پھر جب کبھی ملک سے مارشل لا ہٹانے کا وقت آتا ہے تو ایسے افراد کا سہارا لیا جاتا ہے جن میں جمہوری اقدار کی پاسداری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، تاکہ سابقہ فوجی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
پاکستان کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1962 میں صدر ایوب نے سیاسی افراد پر مشتمل ایک نیا سیاسی گروہ بنایا جو ان کا ہم خیال تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیاالحق نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور اس میں سے چن چن کی ایسے افراد ڈھونڈے گئے جن کی وفاداریاں صدر جنرل ضیا الحق کے ساتھ تھیں نہ کہ جمہوریت کے ساتھ۔ان کے مطابق حالیہ جمہوری عمل میں زیادہ تر چہرے اسی زمانے کا شاخسانہ ہیں۔
فوجی ادوار میں دیگر جمہوری ممالک کے پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے مغربی ممالک جمہوریت کے چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تاہم جب پاکستان جیسے ممالک میں مارشل لا لگتا ہے تو وہ ہمیشہ مارشل لا لگانے والے کے ہی حامی رہے ہیں۔ ان ممالک کے لیے فردِ واحد کے ساتھ کام کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
عامر متین کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے بعد کافی تبدیل رونما ہوئی ہے۔ اسٹبیلشمنٹ کے رویے میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں نے بھی پہلے کے مقابلے میں کافی اچھے فیصلے کیے ہیں جن کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی تھی اور میڈیا پر بھی بہت ساری باتیں کھل کر کی جاتی ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ ہر ایشو پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی بھی مقدس گائے نہیں رہی جس کی وجہ سے معاشرے کی قباحتیں سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستان کے جمہوری نظام کا ذکر کرتےہو ئے ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا مطلب صرف ملک بھر میں الیکشن کرانا نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی انتخابات کرانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ وفاق اور صوبائی سطح پر بلدیاتی نظام کی مضبوطی پر بھی کام کرنا چاہیے۔
’استحکام لانے کے لیے فوج دخل اندازی کرتی ہے‘
وزارتِ دفاع کے سابق سیکریٹری لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین ملک کہتے ہیں کہ ملک کو اس وقت شدید آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے کیوں کہ جب سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور انا عروج پر پہنچ جائے تو ملک میں ایک غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس خلا کو پر کرنے اور ملک میں استحکام لانے کے لیے پھر فوج دخل اندازی کرتی ہے جسے بعد میں فوجی مداخلت قرار دیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی مداخلت کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم جب بھی ملک میں فوج مداخلت کرتی ہے تو سیاسی جماعتوں نے ہی ملک میں ایک دوسرے کے خلاف شادیانے بجائے ہیں۔
آصف یٰسین ملک کے مطابق جب کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی جاتی تھی تو مسلم لیگ (ن) خوشی کا اظہار کرتی تھی اور جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ ہوتا تھا تو پیپلز پارٹی کے کارکن بھنگڑے ڈال رہے ہوتے تھے۔
سابق سیکریٹری دفاع کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے موجودہ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی تو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بار بار یہ کہتے تھے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو 10 بار بھی وردی میں ووٹ دینے کے حق میں ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں فوجی مداخلت کے اس عمل میں ہمیشہ سے شریک جرم رہی ہیں۔
موجودہ سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کبھی بھی غیر آئینی قدم نہیں اٹھائیں گے کیوں کہ وہ جمہوریت پسند شخصیت ہیں۔
تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دیگر اداروں کی طرح فوج کی بھی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے۔ یہ طریقہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹزر کیسا ہوگا، آرمی چیف، نیول چیف اور ایئر چیف کا تقرر کیسے کیا جائے گا۔ کیوں کہ موجودہ نظام میں ان عہدوں پر تقرر ایک صوابدیدی اختیار ہے۔ وزیرِ اعظم یا صدر جس کو پسند کرتے ہیں اسی کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔ سب کو قواعد کے تحت چلنا چاہیے۔
سینئر صحافی عامر متین کہتے ہیں کہ اگر جمہوریت میں خامیاں یا خرابیاں ہوں تو اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کو پنپنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک بہت تگ و دو کے بعد اس مقام پر کھڑے ہوئے ہیں تاہم قانون کی حکمرانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسے مکمل استحکام مہیا کر سکتی ہے۔