مسلم لیگ (ن) کا گیلانی حکومت کو تین دن کا الٹی میٹم

(فائل فوٹو)

نواز شریف نے کہا کہ حکومت کو سرکاری اخراجات میں کم از کم 30 فیصد کمی کے علاوہ مختلف اداروں میں مبینہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے بھی موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ آزاد الیکشن کمیشن کا قیام، این آر او سمیت دیگر اہم معاملات پر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد اور بدعنوانی کے بڑے کیسوں کی تحقیقات کے بعد ان میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پیش کیے گئے سیاسی اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔


پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کوانتظامی اُمور میں بہتری لانے سے متعلق اقدامات تجویز کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو تین دن کا الٹی میٹم دیا ہے کہ اس پر اپنا موقف واضح کریں۔

متحدہ قومی موومنٹ کی حکمران اتحاد سے علیحدگی کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس منگل کو اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کیاگیا۔

جماعت کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ملکی صورتحال اس قدر بگڑ گئی ہے کہ اس کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ ”اب وقت آ گیا ہے کہ حکمرانوں سے آخری، دو ٹوک اور واضح بات کی جائے۔“

اُنھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پٹرولیم مصنوعات میں غیر معمولی اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر نظام وضع کیا جائے۔

نواز شریف نے کہا کہ حکومت کو سرکاری اخراجات میں کم از کم 30 فیصد کمی کے علاوہ مختلف اداروں میں مبینہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے بھی موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ آزاد الیکشن کمیشن کا قیام، این آر او سمیت دیگر اہم معاملات پر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد اور بدعنوانی کے بڑے کیسوں کی تحقیقات کے بعد ان میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پیش کیے گئے سیاسی اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ اگر وزیر اعظم آئندہ 72 گھنٹوں میں اس ایجنڈے پر عمل درآمد پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) اس سلسلے میں پیش رفت دیکھانے کے لیے حکومت کو 45 دن کی مہلت دے گی۔

تاہم نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کا جواب نفی میں آیا ، یا اُنھوں نے ان تجاویز پر عمل درآمد سے معذوری ظاہر کی تو مسلم لیگ (ن) حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں سے رجوع کر ے گی۔ البتہ اْنھوں نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم گیلانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا۔

اِس وقت پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد کے ارکان کی تعداد کم ہوکر 160 رہ گئی ہے جب کہ 342 نشستوں کے ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے اسے کم از کم 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے دستور میں بھی ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ پارلیمان میں اکثریت کھو دینے کے بعد وزیر اعظم مستعفی ہوجائیں۔

ایم کیو ایم کی طرف سے حزب اختلاف میں شمولیت کے اعلان کے بعد قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ مخلوط حکومت ختم ہو جائے گی لیکن پیر کو اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم گیلانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے بارے میں مبہم بیانات اور صدر آصف علی زرداری کے وزیر اعظم پر اعتماد کے اظہار نے ان خدشات کو خاصی حد تک کم کر دیا ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماوٴں نے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے سیاسی قوتوں سے رابطے تیز کر رکھے ہیں۔