امریکہ کے ایک تازہ بیان پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں استحکام اور ترقی صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی اہم ہے۔
اسلام آباد میں جاری کیے گئے ایک بیان میں دفتر خارجہ کی ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کی اُن کوششوں کی حمایت کرے جن کا مقصد افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر علاقے میں استحکام اور ترقی کو فروغ دینا ہے۔
جمعہ کو نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا تھا کہ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اپنے ہاں اصلاحات نافذ کرے اورملک میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا نہ دے۔
مزید برآں انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان ایک بڑے عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا ہے جس سے افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
ہلری کلنٹن نے ان خیالات کا اظہار ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی وزارت خارجہ کے اہلکار کو دو افراد کو قتل کرنے کے جرم میں پاکستانی پولیس نے گرفتار کررکھا ہے اور اس معاملے پر دوطرفہ تعلقات کشیدگی کا شکارہیں۔
امریکہ کا موقف ہے کہ پاکستا ن میں زیر حراست اُس کے اہلکارریمنڈ ڈیوس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی کیونکہ مرنے والے دونوں افراد اُسے پستول دیکھا کر لوٹنا چاہتے تھے اور امریکی اہلکار کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ لیکن پاکستانی حکام امریکی کو رہا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کررہے ہیں کہ ڈیوس کی قسمت کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
امریکی عہدے دار کی حراست کے معاملے پر امریکہ کی طرف سے دباؤ کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت بظاہر اندرونی اختلافات کا شکار اور عوامی حلقوں کی طرف سے شدید دباؤ میں ہے۔
ایک روز قبل حکمران پیپلزپارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئی تھیں جس کی وجہ گذشتہ دنوں دیا گیا اُن کو وہ بیان بتائی گئی ہے جس میں اُنھوں نے امریکہ کے موقف کی تائید کی تھی کہ زیر حراست امریکی سفارتی استثنیٰ کا حقدار ہے۔ بعد میں وزیہ وہاب نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی تھی کہ یہ اُن کی ذاتی رائے تھی نا کہ اُن کی جماعت کی۔
فوزیہ وہاب کی جگہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کو پیپلز پارٹی کا نیا ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی الزام لگایا ہے کہ انھیں وفاقی کابینہ میں دوبارہ شامل نا کرنے کی وجہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ تھا کیونکہ اُنھیں وزارت خارجہ کے افسران کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق زیر حراست اس امریکی اہلکار کوو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔