پیر کی شام سے کراچی میں اچانک شروع ہونے والے ہنگاموں، تین روزہ سوگ اور غیراعلانیہ ہڑتال کے بعد آج سے کراچی کی گہما گہمی دوبارہ لوٹ آئی ہے۔ چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں حسب روایت خریداروں کا رش رہا تاہم زیادہ تر خریدارسیلاب کے بعد ایک اور سیلاب کا گلہ شکوہ کرتے دکھائی دیئے۔۔۔ اور وہ ہے مہنگائی کا سیلاب!!!۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے ابھی سیلاب کا خطرہ ٹلا نہیں کہ عوام کو ایک اور سیلاب نے آگھیرا ہے۔ ویسے تو ہر چیز ہی مہنگی ہے مگرہنگاموں کے بعد سبزیوں کے دام دوگنا ہوگئے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے کراچی کے علاقے واٹر پمپ کی نسبتا ً بڑی عوامی مارکیٹ میں بیشتر افراد نے سبزیوں کے دام یک دم دگنا ہوجانے کی شکایت کی۔
نارتھ کراچی کی رہائشی ایک خاتون شائستہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا: "میں سہ پہر سے مارکیٹ میں ہوں۔ سودا سلف کے ساتھ ساتھ میں نے سوچا چلو سبزیاں بھی لیتی چلوں مگر سبزیوں کے دام سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ ٹماٹر ساٹھ روپے کلو، پیاز تیس روپے، آلو 25 روپے کلو، ہری مرچیں 20 روپے پاوٴ اور ادرک لہسن جو ہر سالن میں استعمال ہوتا ہے، وہ سب سے زیادہ مہنگا ہے۔۔۔۔ لینا تو دور کی بات کوئی دام پوچھنے کا بھی سوچ نہیں سکتا"۔
نیو کراچی کے علاقے سے آئی ہوئی ایک اورخاتون عفت بی بی نے بتایا "دکاندار ریٹ کم کرنے کو تیار نہیں۔ کہتے ہیں سیلاب کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوگئی۔ پہلے غریب آدمی پیاز سے روٹی کھا لیتا تھا اب وہ بھی مشکل نظر آتا ہے"۔"
اس نمائندے کے استفسار پر دکاندار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: "ہم کیا کرسکتے ہیں بھائی صاحب! سیلاب سے فصلیں تباہ ہوگئیں۔ سامان کم اور مانگنے والے زیادہ ہیں۔ منڈی میں آڑھتی لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، پیچھے سے سپلائی نہیں۔ تین دن سے منڈی بند پڑی تھی مگر مال اب بھی پورا نہیں آیا۔ ہمیں پیچھے سے مہنگا مال ملے گا تو ہم سستا کہاں سے بیجیں گے"؟
ملک کے دو صوبوں خبیر پختونخواہ اور پنجاب میں 29 جولائی کو آنے والے سیلاب سے جہاں جانی نقصان ہوا وہیں بڑے پیمانے پر زرعی اراضی بھی زیر آب آگئی جس سے کھڑی فصلیں تہس نہس ہوگئیں۔ پاکستان کے سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق دریائے جہلم میں سیلاب اور شدید بارشوں سے ضلع جھنگ میں 125000 ایکڑ زمین زیر آب آ گئی جبکہ چاول، کپاس اور چارے کی فصلیں مکمل طور پر سیلابی پانی میں بہہ گئیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں اس وقت چار چارفٹ پانی کھڑا ہے جبکہ ہزاروں افراد محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ۔ بعض علاقوں میں جانوروں کیلئے چارہ تک نہیں ۔دیہات سے شہروں کو آنے والی سڑکوں کا بھی یہی حال ہے ٹرانسپورٹ بند ہے لہذا شہروں کو سبزیوں اور دیگر سامان کی فراہمی معطل ہے۔ ان حالات پر قابو پانے میں مزید کچھ دن لگیں گے تب کہیں جاکر مہنگائی کا زور ٹوٹے گا۔
مگر کراچی کو سبزیاں اور فروٹ سپلائی کرنے والے ایک تاجر نے وائس آف امریکا کو بتایا : سبزیاں اور فروٹ کے دام کم ازکم رمضان میں تو کم نہیں ہوں گے۔ رمضان میں تو عام حالات میں بھی یہ چیزیں خود ہمیں مہنگے داموں ملتی ہیں، پھر اس بار تو سیلاب، ہنگامیں، ہڑتالیں اور رمضان سب ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ ایسی صورت میں کم دام دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوں گے۔