پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ وہ آئیں اور تمام متنازع مسائل پر تبادلہ خیال کریں۔ اس پیشکش کے جواب میں پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کہتے ہیں کہ ہمیں مذاکرات اور بات چیت سے کوئی انکار نہیں، صرف اخلاص اور اختیار رکھنے والے لوگ جب چاہیں، ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
اسلام آباد میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پرویز خٹک نے پی ٹی ایم رہنماؤں کو دعوت دی ہے کہ وہ آئیں اور تمام متنازع مسائل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کریں۔
بیان کے مطابق پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ وہ اور پی ٹی ایم رہنما صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں اجتماعی طور پر صوبے کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ انھوں کے کہا کہ پختون قوم ایک محب وطن قوم ہے اور اپنے ملک کے دفاع میں اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔
پروہر خٹک کا کہنا تھا کہ سابقہ فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ان اضلاع کو صوبے میں ضم کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان اضلاع کے عوام تعلیم، صحت کی بنیادی سہولیات، مواصلات کے بنیادی ڈھانچے کے سلسلے میں باقی ملک سے پس ماندہ تھے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی ترقی کے لئے سیاسی محاذ آرائی کی بجائے اجتماعی طور پر کام کریں۔
پرویز خٹک نے پی ٹی ایم کی قیادت کو دعوت دی کہ وہ ٹیبل پر بیٹھیں اور اپنے تحفظات کو بیان کریں تا کہ ان پر تبادلہ خیال کر کے انھیں حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ملک ایک مشکل دور سے گذر رہا ہے جس میں عوام کو عالمی وبائی بیماری سے سامنا کرنا پڑ رہا ھے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے مرض نے نہ صرف ملکی معیشت بلکہ پاکستان کے لوگوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہلک وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں، خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں سیاسی عدم استحکام لوگوں کی پریشانیوں میں اصافہ کرے گا۔
پی ٹی ایم کا ردعمل
اس پیش کش کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے کہا کہ ریاست کا حق بنتا ہے اور ریاست کو مذاکرات کرنے بھی چاہییں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں اخلاص ہو، یہ نہ ہو کہ کسی کو بٹھانے کے لیے یا پھر بدنام کرنے کے لیے ان مذاکرات کو استعمال کیا جائے۔ لیکن مسائل کے حل کے لیے اور پوری قوم کی بھلائی کے لیے بات ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ اگر مذاکرات ہوں تو کس معاملے پر اور کون سے ایشو پر بات کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ جب مذاکرات ہوتے ہیں تو ان میں بہت سے مسائل پر بات ہوتی ہے۔ لیکن کون کون سے مطالبات یا معاملات پر بات کرنی ہے، تو اس پر پی ٹی ایم کے تمام قائدین باضابطہ مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے اور اپنی بات حکومت کے سامنے رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پوری طرح مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن اس میں سنجیدگی ہونی چاہیے اور مذاکرات کرنے والی ٹیم بااختیار ہونی چاہیے کیونکہ ماضی میں ایسے کئی واقعات ہوئے کہ مذاکرات شروع ہوئے لیکن پھر کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے، جس سے تمام مذاکرات سبوتاژ ہو جاتے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سرکردہ نوجوانوں کی ایک تنظیم ہے جو پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔ کراچی میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس تنظیم کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ماضی میں ریاستی اداروں کی طرف سے اس تنظیم پر غیر ملکی اداروں کی طرف سے فنڈنگ کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور مختلف اوقات میں تحریک کے اہم لیڈر منظور پشتین سمیت دیگر قائدین کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں شمالی وزیرستان میں رکن اسمبلی علی وزیر کے کزن عارف وزیر کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔