انٹرنیٹ پر پابندیوں کے لحاظ سے پاکستان کے تیسرے نمبر پر ہونے سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ آئے روز انٹرنیٹ کی بندش نہ صرف صارفین کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے سرمایہ کاروں کا بھی اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
پاکستان میں رواں سال صارفین کو پہلے چھ ماہ میں تین مرتبہ انٹرنیٹ معطلی کا سامنا کرنا پڑا اور اس اعتبار سے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے درجے پر آ گیا۔
ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کمپنی 'سرف شارک' کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2023 کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان، ایران اور بھارت کے بعد انٹرنیٹ کی بندش کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہا۔
'سرف شارک' ششماہی تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کے دنیا بھر میں 42 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے زیادہ تر ایشیا میں رپورٹ ہوئے۔
دنیا بھر میں ہونے والی ان 42 پابندیوں میں سے پاکستانیوں کو تین بار انٹرنیت بندش کا سامنا رہا جو کہ نو مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد عائد کی گئیں۔
واضح رہے کہ نو مئی کو پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کو روکنے کے لیے حکومت نے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ معطل اور سوشل میڈیا سروسز کو بلاک کردیا تھا۔
اس موقع پر ملک بھر میں ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام اور یوٹیوب پر رسائی محدود کر دی گئی تھی۔
حکومتی وزرا اس اقدام کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور چین جیسے ممالک سب ہی سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان میں بعض لوگ اس میڈیم کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اُکسانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ماضی میں بھی پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کے پیش نظر انٹرنیٹ تک رسائی بند یا محدود کی جاتی رہی ہے۔
'پابندی مسائل کا حل نہیں ہے'
وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹر نیٹ پر پابندی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ پابندی ترقی کے عمل کو روکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ان کے اس مؤقف کو نہ صرف ہر سطح پر سنا گیا بلکہ تسلیم بھی کیا جا رہا ہے۔
'انٹرنیٹ کی بندش تو اب یہاں روز کا معمول ہے'
انٹرنیٹ پر صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ احتجاج، سیاسی سرگرمی یا اہم مواقع پر انٹرنیٹ کی معطلی ایک روایت بن گئی ہے۔
ریسرچ تھنک ٹینک بائٹس فار آل کے محمد شہزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بندش کے واقعات سرف شارک کی رپورٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تو انٹرنیٹ بندش روایت سی بن گئی ہے جب کہ کئی مذہبی تہواروں کے مواقع پر بھی انٹرنیٹ بند کرنا معمول ہے۔
محمد شہزاد کے مطابق سن 2012 سے اب تک ہر سال اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اب تو حکومت کو ایسا کرتے ہوئے شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹرنیٹ بندش کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے تاہم اس کے باوجود حکومت جب چاہے انٹرنیٹ بند کر دیتی ہے۔
محمد شہزاد کہتے ہیں کہ پاکستان میں محدود پیمانے پر انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطلی کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ حالیہ دنوں پاڑہ چنار اور باجوڑ میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کردیا گیا تھا۔
فریڈم ہاؤس کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں انٹرنیٹ پر آزادی حاصل نہیں ہے اور پاکستان کو 100 میں سے صرف 26 پوائنٹس دیے گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ میں رکاوٹ نہ صرف لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی بھاری نقصان کا باعث ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے'
انٹرنیٹ صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' کے بانی اسد بیگ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش سے آئی ٹی مارکیٹ پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اُن کا کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات سے ڈیجیٹل دنیا میں پاکستان کا تاثر مثبت نہیں جاتا ہے جو کہ ڈیجیٹل سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے والے ممالک کی فہرست میں آنے سے بین الاقوامی کمپنیاں سرمایہ کاری سے اجتناب کرتی ہیں اور کاروبار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اسد بیگ کے بقول انٹرنیٹ بندش کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا ہے کیوں کہ ایسی کوئی تحقیقی رپورٹ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش امن و امان قائم رکھنے میں معاونت کرتی ہے۔
اُن کے بقول جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو پالیسی ساز ہمیں جواب دیتے ہیں کہ بھارت میں بھی انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ہوتا ہے۔
اسد بیگ کہتے ہیں معاملہ یہ ہے کہ بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے اور ان میں استعداد ہے کہ وہ شٹ ڈاؤن کو برداشت کرسکے اس کے مقابلے میں ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے۔
سرف شارک کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر پابندی لگانے والے ممالک میں ایران پہلے درجے پر ہے جہاں 14مرتبہ پابندی عائد کی گئی۔ ایران کے بعد بھارت نو مرتبہ انٹرنیٹ بندش کے ساتھ دوسرے درجے پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں کی بڑی وجہ احتجاج تھے۔