سیاسی فضا میں بڑھتی کشیدگی؛کیا انتخابات کے بعد بحران ختم ہو سکے گا؟

پاکستان میں گذشتہ ایک سال سے جاری سیاسی کشیدگی کا ماحول حالیہ تشدد کے واقعات کے بعد انتشار کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

اتحادی حکومت اور حزبِ اختلاف سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کی بجائے صورتِ حال کو سیاسی طاقت کے اظہار اور قانونی و انتظامی طریقے سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہیں۔

ایسے میں یہ موضوع زیرِ بحث ہے کہ صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے اور حکومت اور اپوزیشن کشیدہ سیاسی فضا ختم کرنے کے لیےمذاکرات کی طرف مائل کیوں نہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی کشیدگی کے ماحول کو کم کرنے کا راستہ بات چیت ہی ہے لیکن دونوں جانب سے اس کی صورت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت انتخابات کا عندیہ نہیں دیتی بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔

یاد رہے کہ حکومتی رہنما احسن اقبال نے گذشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ بات چیت سے قبل عدالتی احکامات پر عمل کریں۔

گذشتہ سال اپریل میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومتی اتحاد کا موقف تھا کہ وہ معیشت کو سنبھالیں گے اور عمران خان کی جانب سے درپیش سیاسی چیلینج سے بھی نمٹیں گے۔ تاہم بظاہرا اتحادی حکومت تاحال دونوں میں کامیابی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

وزیرا عظم شہباز شریف نے سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو اتحادی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس وزیر اعظم ہاؤس میں بلا رکھا ہے جہاں غور و خوص کے بعد ممکنہ طور پر حکمتِ عملی متعین جائے گی۔

SEE ALSO: عدلیہ میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز اٹھا سکے: شوکت عزیز صدیقی


مبصرین کا کہنا گزرے ایک برس میں حکومت کی تذبذب کی پالیسی نے صورتحال کو پیچیدہ کردیا ہے اور یہ الجھاؤ دور کرنے کے لیے حکومتی اتحاد کو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔

حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟

صحافی و تجزیہ نگار راشد رحمان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر مسلم لیگ ن کی رائے آغاز ہی سے منقسم تھی۔ شہباز شریف اور آصف زرداری اقتدار سنبھالنا چاہتے تھے جبکہ نواز شریف انتخابات چاہتے تھے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی حکومت نہ معیشت کو درست کرسکی نہ ہی سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوسکا۔

ان کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے دوست ممالک بھی مدد کرنے سے گریزاں ہیں اور صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں منہگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

راشد رحمان کہتے ہیں کہ عمران کی حکومت ختم کرنے سے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور پی ٹی آئی کے حامی شدت پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ محاذ آرائی کا یہ ماحول بحرانی صورت میں تبدیل ہوچکا ہے اورحالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔

راشد رحمان نے کہا کہ اس ماحول میں حکومت اور اپوزیشن کوئی بھی بات چیت میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف اسٹیبلیشمنٹ نے بھی حالات سے فاصلہ اختیار کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں کسی نقطے پر اتفاق کا امکان نظر نہیں آتا جس کے باعث سیاسی مستقبل بہت غیر یقینی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

عمران خان کی پیشی، اسلام آباد میں سارا دن کیا ہوتا رہا؟


’بحران پیچیدہ ہوجائے گا’

تجزیہ نگار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حکومت کو انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ کوئی سیاسی حکومت الیکشن سے فرار کی پالیسی نہیں اپناتی۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمےکا واحد راستہ صرف الیکشن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قومی اسمبلی تحلیل کرکے ایک ساتھ ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ خطرہ موجود ہے کہ عمران خان انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے اور عام انتخابات کے انعقاد کے باوجود سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا۔

تاہم ان کے بقول ایسی صورت میں جب عمران خان حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں تو اتحادی جماعتوں کو چاہیے کہ پی ٹی آئی کی شفاف انتخابات سے متعلق تمام تجاویز کو تسلیم کرلے تاکہ ان کے پاس انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا جواز باقی نہ رہے۔

خیال رہے کہ عمران خان وزارت عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد سے عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کردی ہیں جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ موجودی قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کرے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت و حزب اختلاف اگر موجودہ حالات کو طول دیتے رہے تو بحران مزید پیچیدہ جائے گا۔

SEE ALSO: ’موجودہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں‘

کیا انتخابات سے بحران ٹل جائے گا؟

راشد رحمان کا کہنا ہے کہ انتخابات کا انعقاد حکومت کو موافق نہیں اور اسی بنا پر وہ سپریم کورٹ سےتمام صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کا مطالبہ کررہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کشیدگی کے اس ماحول میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور الیکشن کمیشن پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ امن و امان کے خدشات کے ماحول میں دفاعی ادارے سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرا رہے ہیں۔

راشد رحمان کہتے ہیں کہ صورتحال یوں ہی جاری و ساری نہیں رہ سکتی ہے اور بعض لوگ اسے خانہ جنگی کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ملک بدترین بحران سے گزر رہا ہے لیکن اس کے باوجود ریاست کو خطرہ نہیں ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال نہ ہونے کے باوجود ملک دیوالیہ ہونے نہیں جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کرائے جائیں۔ ان کے نزدیک صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے الگ الگ انتخاب سے ملک میں انتشار بڑھے گا۔

نصرف جاوید کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت کو سنجیدگی سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور ملک میں ایک ساتھ صوبائی و قومی انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔