پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بائیس جون کو امریکہ اور بھارت کے ایک مشترکہ بیان کے بارے میں، جس میں پاکستان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا ہے کہ ہم اسے غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن سمجھتے ہیں۔ یہ حوالہ سفارتی آداب کے برعکس اور سیاسی نوعیت کا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ ، امریکہ کے ساتھ، انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان کے گہرے تعاون کے باوجود اسے مشترکہ بیان میں شامل کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسی قربانیاں دی ہیں جو کسی نے بھی نہیں دیں۔ اس جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ، ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے ایک مثال قائم کردی ہے۔ اور اس جنگ میں پاکستان کے لوگ اصل ہیروز ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو بار ہاتسلیم بھی کیا ہے۔ اور بہت عرصہ پہلے یہ بات طے ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کو مشترکہ اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے کی جانے والی کوششوں کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے۔
" آج ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مشترکہ بیان میں کئے گئے دعوے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بین الاقوامی عزم کو کس طرح مضبوط اور مستحکم کیا جا سکتا ہے۔بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعاون کی روح کو، جس کی دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے شدید ضرورت ہے ، جیو پولیٹکل ضرورتوں کی قربان گاہ پر قربان کر دیا گیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیری عوام پر( بیان کے الفاظ میں) اپنے جبر اور اپنی اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکی کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لئے اپنی عادت کے مطابق دہشت گردی کے موضوع کو استعمال کرتا ہے۔
پاکستانی محکمہ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے پاکستان کو بھارت کے لئے جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منتقلی کے منصوبوں پر بھی گہری تشویش ہے جن سے خطے میں فوجی عدم توازن نمایاں ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہاتھا کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ، یورپ اور باقی دنیا کی توجہ دہشت گردی سے ہٹ کر یوکرین جنگ پر ہے۔ لہذٰا علاقائی سیاست سے ہٹ کر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
جمعے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے صدر بائیڈن اور بھارتی وزیرِ اعظم مودی کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے پر ردِعمل کا اظہار کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہمیں کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں، ہم کیوں نہیں چاہیں گے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو، ہم اپنے عوام کے مستقبل کے لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔"
جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کے مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین انتہا پسند حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات سے پاکستان کو عدم تحفظ کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان کل بھی اپنے بل بوتے پر کھڑا تھا اور آئندہ بھی اپنی طاقت سے ہی آگے بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، امریکہ اور بھارت کے دہشت گردی کے متاثرین کی تعداد بھی پاکستان سے کم ہے۔
SEE ALSO: ساجد میر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد پھر ویٹو ، بھارت کی تنقیدبلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ "میری شکایت رہی ہے کہ باقی دنیا تو افغانستان سے چلی گئی ہے اب تو کسی کی بھی دہشت گردی سے نمٹنے کی طرف توجہ نہیں ہے۔"
افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد امریکہ، یورپ اور دنیا بھر کی توجہ دہشت گردی کے بجائے اب یوکرین جنگ پر ہے۔
وزیرِ خارجہ کے بقول پاکستان کی ضرورت ہے کہ دنیا کی سیاست سے دُور رہے اور اپنے اندرونی معاملات پر توجہ رکھے۔ہمیں چاہیے کہ سیاسی اور معاشی مسائل کو درست کریں، پھر ہم دنیا بھر میں اپنے عالمی اہداف کو حاصل کریں۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نےاپنی ٹویٹ میں امریکہ، بھارت مشترکہ بیان پر کہا تھا کہ "اس بیان کی ستم ظریفی ایک ایسے شخص کے دورے کے دوران سامنے آئی جس پر مسلمانوں کے قتل عام کی نگرانی کے لیے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ "
اُن کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کو دوبارہ 'گجرات کے قصائی' سے ملنے سے قبل ان حقائق پر غور کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے جمعے کو اپنے ٹویٹ میں الزام لگایا کہ "نریندر مودی کشمیر میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ایک مہم کی قیادت کرتے ہیں جس میں مقامی آبادی کو معمول کے مطابق معذور اور اندھا کرنا شامل ہے۔"
پاکستانی وزیرِ دفاع کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم کے حامیوں نے بھارت میں مسلمانوں، مسیحوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں جب کہ پریس کانفرنس کے دوران بھی اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ بھارت کا آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں امریکہ کی ناکام مداخلتوں کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار جانیں گنوا چکا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان اپنی سرزمین انتہا پسند حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے: امریکہ بھارت کا مشترکہ بیانمشترکہ اعلامیے میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان سے بھارت کو نشانہ بنانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کے کسی اعلٰی عہدے دار نے بھارتی وزیرِ اعظم کے حوالے سے اس طرح کے الفاظ استعمال کیے ہوں۔ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو بھی بھارتی وزیرِ اعظم پر اسی نوعیت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔