|
پاکستان کے شمال مغربی علاقے کے عسکریت پسندوں نے جمعرات کے روز ایک آرمی کرنل اور ان کے بھائی کی ایک ویڈیو ریلیز کی ہے جس میں انہیں قید میں حکام سے اپنی آزادی کے حصول میں مدد کی درخواست کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔
یہ دونوں افسر چار افراد کے اس گروپ کا حصہ ہیں جس میں ان کے تیسرے بھائی اور ایک بھتیجا بھی شامل ہیں جنہیں نامعلوم مسلح افراد نے بدھ کی شام اُس وقت اغوا کیا تھا جب وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے والد کی تدفین کے بعد فاتحہ خوانی کے لیے آنے والے اہلِ علاقہ اور رشتہ داروں کے ساتھ ایک گھر میں تھے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے جو پاکستانی طالبان کے طور پر بھی معروف ہے ، چاروں افراد کے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن اپنے مطالبوں کو عوامی طورپر شئیر نہیں کیا تھا۔
اس 35 سیکنڈ کی ویڈیو میں لیفٹینٹ کرنل خالد امیر نے کہا، ہم بحفاظت اور بخیرو عافیت ہیں اور ایک دور دراز علاقے میں زیر حراست ہیں جہاں پاکستانی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
پس منظر میں روائتی لباس میں ملبوس ، اسالٹ رائفل پکڑے دو مرد دیکھے جا سکتے ہیں جنہوں نے اپنے چہروں کو دانستہ طور پر ویڈیو کے فریم سے باہر رکھا ہوا ہے ۔
لیفٹینٹ کرنل خالد امیر نے کسی وضاحت کے بغیر کہا، ہم حکومت سے اور اعلی حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری رہائی کے لیے طالبان کے مطالبات کو فوری طور پر قبول کر لیں۔
فوجی افسر کے بھائی آصف امیرنے جو ایک پولیس اسسٹنٹ کمشنر ہیں ایسا ہی بیان دیا اور اپنے رشتے داروں پر زور دیا کہ وہ پاکستانی حکام پر ان کی آزادی کے حصول کے لیے دباؤ ڈالیں ۔
SEE ALSO: ڈی آئی خان: فوج کے اعلیٰ افسر اور تین ایف سی اہلکاروں سمیت 7 افراد اغواایاز گل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ علاقے کے سیکیورٹی عہدے داروں نے جنہیں اس معاملے پر میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یرغمالوں کی شناخت اور ویڈیو کے مستند ہونے کی تصدیق کی ہے۔
باقی دو یرغمالوں کا اتہ پتہ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا۔ ٹی ٹی پی کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان سویلین قیدیوں کی ویڈیوز نہیں بناتے، جن کا پاکستانی فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق نہیں ہوتا۔
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے پاکستانی فوج کےلیفٹینٹ کرنل خالد امیر کو ان تین عزیزوں سمیت اور بدھ کو ہی فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کے تین اہلکاروں کو اغوا کیا گیا تھا۔
اطلاعات ہیں کہ مسلح افراد مغویوں کو کلاچی سے ملحقہ علاقے لونی لے گئے ہیں۔
مقامی پولیس عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کلاچی تحصیل کے مختلف علاقوں میں اغوا کاروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے۔
پاکستانی طالبان ڈیرہ اسماعیل خان اور صوبے خیبر پختونخواہ کے دوسرے اضلاع میں جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں، سیکورٹی فورسز اور حکومت کے اہداف کے خلاف معمول کے مطابق "حملہ کرو اور بھاگ جاؤ" والے حملے کرتے رہتے ہیں ۔
SEE ALSO: طالبان حکومت کے تین سال؛ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی ،جو عالمی طور پر نامزد ایک دہشت گرد گروپ ہے، افغان علاقے میں محفوظ پناہ گاہوں سے سرحد پار مہلک حملے کرتی ہے اور پڑوسی ملک کے اسلام پسند طالبان رہنماؤں کی بڑھتی ہوئی مدد حاصل کرتی ہے۔
حالیہ مہینوں میں تشدد میں سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر سیکورٹی فورسز کے ارکان تھے جس کے نتیجے میں کابل کے ڈیفیکٹو حکمرانوں کےساتھ اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
طالبان پاکستانی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی نہیں ہے۔
SEE ALSO: ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے: افغان طالبان کا دعویٰتاہم اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کی حالیہ رپورٹس میں طالبان کے دعوؤں سے اختلاف کیا گیا ہے اور ٹی ٹی پی کو افغانستان کے سب سے بڑے دہشت گرد گروپ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ، جسے پاکستان کی سرحد کے قریب کے علاقوں میں القاعدہ کے زیر انتظام تربیتی کیمپوں میں تربیت دی جاتی ہے اور مسلح کیا جا رہا ہے ۔
اقوام متحدہ کے جائزوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان جنگجو ٹی ٹی پی کی زیر قیادت سرحد پار سے پاکستان پر حملوں میں حصہ لے رہے ہیں۔