|
پاکستان کی وفاقی حکومت آئندہ ماہ کے آغاز میں نئے مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرنے والی ہے اور ماہرین نئی حکومت کے پہلے بجٹ کو ملک معاشی حالات کے تناظر میں ایک بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو کئی شعبوں میں ٹیکس چھوٹ مکمل طور پر ختم کرنا ہوگی۔
بجٹ کی تیاری ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) کے ایک اور پروگرام میں جانے کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں مزید پیش رفت کو قانون سازی اور پارلیمنٹ سے کئی اقدامات کی منظوری سے بھی جوڑا گیا ہے۔ ان اقدامات میں توانائی، پینشن، سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات کے نفاذ، بجلی گیس کے نرخ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس سے متعلق اصلاحات شامل ہیں۔
اسی طرح حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے اپنے منصوبے سے اور حکومت عملی سے عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف توانائی سیکٹر میں خسارہ 2400 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں اس میں 325 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان کے بجٹ خسارے اور آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کرنا ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں کئی ٹیکسز میں اضافہ اور بعض نئے ٹیکس لگنے کا بھی امکان ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں ٹیکس کم کیوں جمع ہوتا ہے؟گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا فیصلہ
بجٹ امور پر نظر رکھنے والے ماہر معیشت عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ آٹو سیکٹر میں ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کی تجویز سامنے آئی ہے جس کے تحت گاڑی کی مالیت پر 10 فی صد نیا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔
اسی طرح دو ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر پہلے سے موجود سالانہ ایڈوانس ٹیکس فائلرز کے لیے پانچ لاکھ روپے کیا جارہا ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے یہ ٹیکس 24 فی صد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس عمل سے حکومتی ریونیو میں تو اضافہ ہوگا مگر اس سے ملک میں گاڑیوں کی فروخت مزید کم ہو جائے گی۔
نان فائلرز کے لیے کریڈٹ کارڈز سے ادائیگی پر زیادہ ٹیکس
ایک اور ماہرِ معیشیت منور رضا کا کہنا ہے کہ کریڈٹ کارڈز پر بیرونی ادائیگیوں پر نان فائلرز کے لئے 20 فی صد ٹیکس عائد کیا جارہا ہے جو کہ اچھی تجویز ہے اور اس سے نان فائلرز کی بیرونی اخراجات کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
دوسری جانب کریڈٹ کارڈز سے بیرونی ادائیگیاں کرنے والے فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔
منور رضا کے خیال میں ایسا کرنے سے زرمبادلہ کے آوٹ فلو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ان کے خیال میں ملکی معیشت کو درپیش موجودہ حالات میں زیادہ مناسب نہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی، وجہ کیا ہے؟بزنس کلاس میں بین الاقوامی سفر پر فکس ٹیکس کی تجویز
اسی طرح اگر آپ ملک سے باہر بزنس کلاس میں سفر کررہے ہوں گے تو آپ کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے بجائے اب فکس ٹیکس دینا ہوگا جو روٹس کی مناسبت سے طے کیا جائے گا۔
اس پر کم سے کم ٹیکس 75 ہزار روپے سے ڈھائی لاکھ روپے تک رکھنے کی تجویز ہے۔ماہرین اس ٹیکس کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں کے لیے یہ ٹیکس دینا کوئی مشکل نہیں ہوگا اور اس کے نفاذ سے غیر ملکی زرِمبادلہ کی بچت ہوگی۔
بینک سے کیش نکالنے پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ
اسی طرح ایک تجویز کے مطابق بینکوں سے کیش نکالنے پر نان فائلرز کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اب اس کے لئے نئی شرح اعشاریہ نو فیصد مقرر کی جارہی ہے۔ جو پہلے اعشاریہ چھ فی صد تھی۔
ماہرین کے مطابق اس سے نہ صرف حکومت کے محصولات میں اضافہ ہو گا وہیں نان فائلرز کو فائلرز بننے کی ترغیب ملے گی اور کیش پر کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
وفاقی حکومت نے زرعی آمدنی، نان کارپوریٹ کاروبار، سروس پروائڈرز بلڈرز اور کنسٹرکشن فرمزپر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ماہرین معیشت اسے اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور تجویز کے تحت بجلی کے دو لاکھ سے زائد والے بلز پر نان فائلرز صارفین کے لیے ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 20 فی صد تک کی جارہی ہے۔
عبدالعظیم کے خیال میں اس عمل سے بھی فائلر بننے کی حوصلہ افزائی ہوگی اور حکومت کے محصولات بھی بڑھیں گے۔
SEE ALSO: پاکستان-ایران گیس پائپ لائن: وعدوں سے بھرا ماضی لیکن مستقبل کیا ہو گا؟دوسری جانب حکومت نے بجلی اور گیس کے ایسے نان فائلرز صارفین پر بھی ٹیکس کی شرح 30 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کمرشل اور انڈسٹریل کنکشنز رکھتے ہیں۔
ماہرین کے خیال میں ایسا کرنے سے حکومت کے محصولات میں اضافہ تو ممکن ہے لیکن صنعتوں کی پیداوارای لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کے منافع میں کمی ہوگی جس کے باعث ملک کی معاشی ترقی میں بھی رکاوٹیں آئیں گی۔
شادی ہالز پر ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ؟
بجٹ کے لیے سیلز ٹیکس کے ساتھ ایکسٹرا سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
شادی ہالز کا بل دو لاکھ روپے سے زائد ہونے کی صورت میں 25 فی صد میرج ہالز ٹیکس بھی لینے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
ماہرین معیشت کے خیال میں اس عمل سے حکومتی ریونیوز میں تو خاطر خواہ اضافہ ہوگا لیکن اس سے مہنگائی بھی بڑے گی اور یوں معاشی ترقی کی رفتار جو پہلے ہی سست ہے مزید مدھم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا۔
پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کے ساتھ سیلز ٹیکس کی تجویز
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کے ساتھ اب حکومت نے ایک بارپھر 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس لاگو کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔
ماہرین کے خیال میں اس عمل سے جہاں مہنگائی بڑھے گی وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے۔
حکومت نے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے اس بار ادویات پر بھی 10 سے 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں دوست ممالک کی سرمایہ کاری، اعلانات کے بعد عمل کیوں نہیں ہوتا؟ماہرین کے مطابق یقینا اس کے منفی اثرات کے تحت ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ تاہم کئی ماہرین اس امکان کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ عوامی ردعمل کی بنا پر یہ تجویز واپس بھی لی جاسکتی ہے۔
پراپرٹی پر ٹیکس
ادھر رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت کئی تجاویز پر سوچ بچار کررہی ہے۔
ایک تجوزی کے مطابق زرعی زمین اور پراپرٹی پر اعشاریہ پانچ فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شہری علاقوں میں 450 گز سے زائد کی پراپرٹی فروخت کرنے پر نان فائلرز کو ساڑھے 10 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
تاہم سریے کی فروخت پر عائد ٹیکس چار فی صد ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔
ماہر معاشیات سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ ٹیکس تجاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اپنے محصولات بڑھائے اور قرضوں پر انحصار کم کرے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کا انحصار ایک بار پھر براہ راست ٹیکس کے بجائے بالواسطہ ٹیکس پر زیادہ نظر آتا ہے۔
ان کے خیال میں حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگ اپنا ٹیکس کسی مجبوری یا خوف کے بجائے خوشی سے دیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو سہولتیں ملیں لیکن دوسری جانب امیروں پر ٹیکس کے لیے سخت اقدامات کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔
ان کے مطابق حکومت اپنے معاشی اہداف پورا کرنا چاہتی ہے تو زرعی آمدن، تجارت، کاروبار، رئیل اسٹیٹ، ڈیری فارمنگ، اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ اور ان سے ان کی آمدن کے حساب سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہوگا۔