|
پاکستان کے ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے کے دوران پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن ماضی جیسی گرم جوشی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔
صنوبر انسٹی ٹیوٹ اور سینٹر فار لا اینڈ سیکیورٹی کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کی رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو بھارت کی طرف مذاکرات کے لیے پہل نہیں کرنی چاہیے۔ تاہم اگر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پرامن تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو اسلام آباد کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا مرکز راہداری منصوبے ہونے چاہئیں جو کہ پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے اکنامک اسٹیٹ میں تبدیل کر سکتے ہیں جب کہ ملکی داخلی حالات خاص طور پر سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت اور دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کے قومی سلامتی و خارجہ پالیسی پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پاکستانی تھنک ٹینک کی اس رپورٹ کے اجرا کے لیے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
مباحثے میں سابق سفیروں، پالیسی ماہرین، تھنک ٹینک اور اکیڈمیا کے محققین بھی شریک تھے۔ کانفرنس کے شرکا نے تسلیم کیا کہ خطے کے علاقائی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں جب کہ چین اور روس کے ساتھ امریکہ کا تزویراتی مقابلہ، یوکرین اور غزہ کی جنگیں، یکطرفہ پن کا عروج عالمگیریت جیسے مسائل کثیرالجہتی کی روح کو کمزور کر رہے ہیں۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ ماضی میں ہم سے غلط فیصلے ہوئے ہیں جو اکثر آمر حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے لیے کیے گئے تھے اور ان فیصلوں کے بعد ہم نے خود کو تنہا پایا۔
'خارجہ پالیسی کی بنیاد جنگ نہیں امن'
پاکستانی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں خارجہ پالیسی کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملکی خارجہ پالیسی کی بنیاد جنگ نہیں امن کے لیے دوستی کے اصول پر ہونی چاہیے۔ پاکستان کو دوسروں کی جنگیں لڑنے میں مشغول نہیں ہونا چاہیے اور قلیل مدتی فوائد اور غیر ملکی امداد سے بچنا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کا محور پرامن پڑوسی بنانے پر ہونا چاہیے جس کی بنیاد آزاد اور عملی خارجہ پالیسی ہو جب کہ خارجہ پالیسی کے تمام اہم امور کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لا کر تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے اندر سے مختلف قسم کی آوازوں اور نقطہ نظر کو سنا جانا چاہیے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اپنے خطاب میں اعتراف کیا کہ طویل عرصے سے پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی پر بحث نہیں ہوئی ہے۔
SEE ALSO: پاکستانی وفد کا دورۂ جموں و کشمیر؛ پانی کی تقسیم پر بھارت کے رویے میں لچک آئی ہے؟پاکستان کی خارجہ پالیسی کا انتخاب سیکیورٹی ضروریات پر مبنی رہا ہے۔ تاہم بدلتے ہوئے عالمی حالات کے ساتھ موجودہ اسٹیبلشمنٹ جغرافیائی سیاست سے جیو معیشت کی طرف پالیسی منتقل کر رہی ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا بھی جائزہ لیں تو اس میں بھی چار نکات اہم ہیں۔ اول جیو معیشت، دوم جیو تعلقات، سوم تنازعات و جنگوں سے خود کو دور رکھنا اور چہارم انسانی ترقی اور اچھی حکمرانی کا عمل شامل ہے۔
پاکستان حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا آئندہ دو سال کے لیے غیر مستقل رکن منتخب ہوا ہے۔
وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق پاکستان کو سلامتی کونسل کی نشست کے انتخابات میں ریکارڈ تعداد میں ووٹ ملے ہیں جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اعتماد کو بڑھایا ہے۔
'مودی کی طرف پہل کرنے کی ضرورت نہیں'
پاکستان کے ہمسایہ اور روایتی حریف ملک بھارت سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پاکستان کے ساتھ کچھ رابطے بحال کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو اسلام آباد کو پرامن تعلقات کی خواہش کی اپنی پالیسی کے مطابق اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے اقدامات میں ہائی کمشنر سطح کے سفارتی تعلقات کو بحال کرنا، واہگہ کے راستے تجارت، ویزا کے نظام میں نرمی، مذہبی سیاحت کی سہولت اور عوام کے رابطوں کی اجازت دی جانی چاہیے۔
تاہم، اگر مودی حکومت پاکستان کے خلاف اپنا جارحانہ رویہ برقرار رکھتی ہے تو حکومت کو بھارت کی طرف کوئی پہل کرنے کی ضرورت نہیں اور مودی کے کردار کو بے نقاب کرنا جاری رکھنا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر نریندر مودی حکومت ایک بالادست علاقائی طاقت کے طور پر برتاؤ کرے یا ہندو راشٹر (ریاست) بنائے تو یہ عمل پاکستان اور خطے کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو بھارت کے انتہا پسندانہ عزائم سے دنیا کو باور کروانا چاہیے۔
SEE ALSO: مودی حکومت کی تیسری مدت: پڑوسی ملکوں سے بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں انتخابات کے بعد دلچسپ صورتِ حال ہے اور دیکھتے ہیں کہ بھارت میں نئی حکومت کے ساتھ اندرونی سیاست کیسے چلتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاشی مشکلات خارجہ پالیسی کے شعبے میں مشکل فیصلے کرنے پر مجبور کر رہی ہیں اور ہمیں علاقائی مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو بھارت کے ساتھ تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے بیک چینل روابط کھولنے کی پیش کش کو قبول کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر پر پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی بنیاد پر اپنا رسمی مؤقف برقرار رکھنا چاہیے۔ تاہم اگر بھارت چار نکاتی فارمولے کو بحال کرنے کی پہل کرتا ہے تو پاکستان کو مثبت جواب دیتے ہوئے تنازعہ کشمیر کے باہمی طور پر قابلِ قبول کی طرف بڑھنا چاہیے۔
رپورٹ میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ پاکستان کو ایک عارضی صوبے کے طور پر گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ اس شرط کے ساتھ دینا چاہیے کہ یہ درجہ جموں و کشمیر کے حتمی تصفیے سے مشروط ہو۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات کے نتائج: کیا پاکستان کی پالیسی میں کوئی فرق آئے گا؟رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اسلام آباد میں سارک سربراہی اجلاس کی میزبانی کی پیش کش کو برقرار رکھنا چاہیے۔ تاہم سارک کے تمام سربراہی اجلاس کھٹمنڈو میں منعقد کرنے کی تجویز کے لیے بھی اسلام آباد کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ 16 نومبر 2021 کو سارک سربراہی اجلاس کی پاکستان نے میزبانی کرنی تھی۔ لیکن بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے سربراہی اجلاس نہیں ہوسکا۔
سارک چارٹر کے مطابق اگر ممبران میں سے کوئی شرکت کرنے سے انکار کر دے تو سربراہانِ حکومت کا اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکتا۔
'طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں'
تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو طالبان کی قیادت میں افغانستان کے ساتھ رابطے جاری رکھنے چاہیں۔ لیکن یکطرفہ طور پر طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پہلے سے جاری کثیر الجہتی مشاورت کے نتیجے میں مشترکہ طور پر لیا جانا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی طرح برتاؤ کرنا چاہیے، جیسا کہ دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات رکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو افغان رہنماؤں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کے تحت پرامن بات چیت کرنی چاہیے کیوں کہ مضبوط اقتصادی تعلقات اور انسداد دہشت گردی تعاون دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
SEE ALSO: طالبان کی پڑوسی ممالک سے سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش، مشکل کیا در پیش ہے؟رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو افغان سرزمین پر اپنے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہےجس کے لیے دونوں ممالک کے میڈیا کے درمیان رابطوں کو آسان بنایا جائے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ "ہم نے افغانستان میں ہر کسی کے ساتھ جانب داری کی اور نتیجتاً سب کو کھو دیا۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے خلیج سمیت کئی جگہوں پر اپنی خارجہ پالیسی کے فوائد کھو دیے۔ اس لیے ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو دورِ حاضر اور ضروریات سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو۔
پاک-سعودی تعلقات کو متنوع بنانے کی ضرورت
ہمسایہ ملک ایران اور اہم خلیجی اتحادی ملک سعودی عرب سے تعلقات کے بارے میں رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاک-سعودی تعلقات کو متنوع بنانے اور انہیں نئے حالات کے مطابق برابری کی بنیاد پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان اور ایران کو دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے ایک مؤثر میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد کو محفوظ اور پرسکون بنایا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ جدید طریقے تلاش کرنے چاہییں جب کہ تجارت بڑھانے کے لیے ایران کے ساتھ سرحدی بازاروں کو ایک مؤثر طریقے کے طور پر پھیلایا جانا چاہیے۔
وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور "ہم نے خطے میں ایک اتحادی حاصل کر لیا ہے۔"
SEE ALSO: شہباز شریف کے چین جانے سے قبل پاکستانی وفد کا دورۂ کابل کتنا اہم ہے؟رپورٹ کے مطابق خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ایک مفید ونڈو ہے جس میں مزید شعبوں کو شامل کر کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اور کویت کو سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جائے۔
رپورٹ میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کے وژن 2030 سے ملنے والے مواقع سے سنجیدگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور پیشہ ورانہ منصوبے پیش کر کے سعودی سرمایہ کاری کی درخواست کرنی چاہیے۔
'جوہری ڈیٹرنس کے بجائے ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھایا جائے'
تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں قومی سلامتی کے امور اور مستقبل کے اہداف کا بھی تعین کیا ہے جس میں خاص طور پر یہ تجویز شامل ہے کہ قومی سلامتی کے مؤثر کام کے لیے قومی سلامتی مشیر کے دفتر کو دوبارہ فعال کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے تحت قائم ڈویژن کو مستقل بنیادوں پر ادارہ جاتی نظام کے تحت چلایا جائے تاکہ پیشہ وارانہ انداز میں امور انجام پائیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر خطرات پائے جاتے ہیں اور ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں، خاص طور پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے افغانستان ایک محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ سرحد بھی مستحکم نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرحدوں پر خطرات کے علاوہ غیر روایتی سیکیورٹی خطرات بھی بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی اور معاشرے کا پولرائزیشن۔ دائمی سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت، اور بگڑتے امن و امان نے پاکستان کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بات خاص اہمیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ پاکستان کو جوہری صلاحیت پر مبنی ڈیٹرنس رجیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں جوہری ڈیٹرنس پر انحصار کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی اور عصری رجحانات کو اپنانا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلے کے ماحول میں بحیرۂ ہند خاص اہمیت کا حامل بن چکا ہے اور بڑے پیمانے پر بھارتی بحریہ کی تشکیل خطرناک عوامل ہیں۔
صنوبر انسٹی ٹیوٹ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی سے متعلق یہ رپورٹ ایسے وقت میں جاری کی ہے جب ملک کو سرحدی خطرات کے علاوہ دہشت گردی، داخلی سیاسی استحکام اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔