آئی ایم ایف سے معاہدے کے بغیر پاکستان کے لیے نیا بجٹ کتنا مشکل ہو گا؟

پاکستان کی حکومت جمعے کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جس کے لیے مجموعی ترقی کی شرح یعنی جی ڈی پی 3.5 فی صد رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت ایسے وقت میں سالانہ بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جب سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ کی تلاش میں ہے۔

اس صورتِ حال میں حکومت کو آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر ہی بجٹ پیش کرنا پڑ رہا ہے۔

آئی ایم ایف سے فنڈز حاصل کرنے میں مہینوں کی تاخیر کے ساتھ ساتھ ملک کو بدترین معاشی بحران کا بھی سامنا ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف نے 6.5 بلین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 9 ویں اور 10ویں جائزوں کو اکٹھا کرنے کا اشارہ دیا ہے تاہم، عالمی ادارہ اور پاکستان اب تک آئندہ بجٹ کے خدوخال کے حوالے سے وسیع تر اتفاق رائے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ وزیرِ اعظم کی صدارت میں قومی اقتصادی کونسل نے منگل کو آئندہ مالی سال 2024-2023 کے بجٹ کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کے تخمینے کے 3.5 فی صد کے ہدف کی منظوری دی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

دواؤں کی قیمت میں اضافہ، مہنگائی سے لڑتے پاکستانیوں پر ایک اور مشکل


'بجٹ میں آئی ایم ایف سے انحراف نہیں کر رہے'

قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کے چیئرمین قیصر احمد شیخ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل معاشی حالات میں بجٹ کی تیاری ایک بڑا چیلنج ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ حکومت بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط سے انحراف نہیں کر رہی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے جو بجٹ تفصیلات مانگی ہیں وہ انہیں مہیا کردی گئی ہیں اور ان کی جانب سے ابھی تک بجٹ پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سبسڈی کو مراعات یافتہ طبقے کی بجائے محروم عوام تک پہنچایا جائے اور ان کے بقول حکومت بجٹ میں ٹارگٹڈ سبسڈی کی طرف ہی جا رہی ہے۔

قیصر احمد شیخ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی ادارے کے سربراہ سے خود بات کی ہے اور امید ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا۔

'حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں سنجیدہ نہیں ہے'

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور انتخابات کا سال ہونے کے سبب حکومت بھی قرض پروگرام کی بحالی میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف چاہے گا کہ ملک سے معاشی عدم استحکام ختم ہو اور حکومت کو معلوم ہے کہ انتخابات سے قبل معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاحال آئی ایم ایف کا نواں جائزہ مکمل نہیں ہوسکا ہے اور 30 جون کو اس پروگرام کو ختم ہونا ہے تو ایسے میں یہ ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ قرض پروگرام کی بحالی ہوسکے۔


وہ کہتے ہیں کہ حکومت بھی چاہے گی کہ عام انتخابات کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کے لیے جایا جائے چاہے وہ مزید سخت شرائط کے ساتھ ہی کیوں ناں ہو کیوں کہ انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے غیر مقبول فیصلے لینا حکومت کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہوں گے۔

اکرام الحق نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت غیر حقیقت پسندانہ ہیں جن پر عمل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

'تنخواہ دار طبقے سے مہنگائی کا بوجھ کم کریں گے'

حکومت کی جانب سے آئندہ سال کے بجٹ میں مہنگائی کی شرح 21 فی صد رکھی جا رہی ہے جو کہ اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔

بجٹ کے تخمینوں کے مطابق رواں سال مئی میں مہنگائی کی شرح 38 فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد حکام کو آئندہ مہینوں میں مہنگائی کم ہونے کی توقع ہے۔

قیصر احمد شیخ نے بجٹ تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے تاکہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جاسکیں اور ملک کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت تنخوا دار طبقے کو مہنگائی کے بوجھ سے کچھ چھٹکارا دینے کے لیے تنخواہوں میں اضافے کر رہی ہے جو کہ نجی شعبے پر بھی لاگو ہوگا۔

خزانہ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ حکومت بجٹ میں ایسے اقدامات لے کر آ رہی ہے کہ ریئل اسٹیٹ شعبے سے سرمایہ کاری صنعت کی طرف منتقل ہوسکے تاکہ معیشت چلے اور روزگار پیدا ہو۔

قیصر شیخ نے کہا کہ بارٹر ٹریڈ کے ساتھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے کے اقدامات بھی بجٹ میں شامل ہیں۔


'حکومتی محصولات قرض ادائیگی میں چلے جائیں گے'

پاکستان میں اگست میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی جس کے بعد عبوری حکومت اس کی جگہ لے گی اور اکتوبر سے قبل عام انتخابات کا انعقاد کروائے گی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ انتخابات کا سال ہونے کے باعث حکومت ایسا تاثر دینا چاہتی ہے کہ معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے اور سخت معاشی فیصلے لینے سے کترا رہی ہے۔

اکرام الحق نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے حکومت کے داخلی اور خارجہ چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور سیاسی قیادت کے غیر سنجیدہ رویے کے سبب اس بحران میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال حکومت کو حاصل ہونے والے محصولات صرف قرض ادائیگی میں چلی جائیں گے اور حکومتی اخراجات کے لیے دیگر ذرائع پر انحصار کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی مد میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو کہ حکومت کے اپنے ذرائع سے ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔

قیصر احمد شیخ نے بتایا کہ حکومت کو محصولات کا ہدف حاصل نہیں ہوا ہے جو کہ ساڑھے چار سو ارب روپے کم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ حکومت کا آمدہ بجٹ بجٹ حقیقت پسندانہ ہوگا جس میں چھوٹی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔

حکومتی رہنما نے کہا کہ سیاسی قیادت کے درمیان میثاق معیشت پر اتفاق رائے کے بغیر ملک میں معاشی استحکام لانا مشکل ہے۔