برطانیہ نے پاکستان میں تعلیم ، صحت اور جمہوریت کے فروغ کے لیے چار سالہ منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت مقامی حکام کے ساتھ مل کر 2015ء تک 40 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کروانے اور دوران زچگی ماؤں کی زندگی بچانے کے لیے اقدامات کے علاوہ آئندہ انتخابات سے قبل 20 لاکھ نئے افراد کا ووٹر لسٹوں میں انداج شامل ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ کے ہائی کمشنرایڈم تھامسن اور برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے ”DFID“کے پاکستان میں سربراہ جارج ٹرینگٹن نے کہا کہ پاکستان کے بہتر مستقبل کا انحصار تعلیم کے فروغ پر ہے اوراسی لیے اُن کے ملک کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کا محوربھی تعلیم ہی ہے ۔
برطانوی امدادی منصوبے کے تحت پاکستانی حکام کے تعاون سے نوے ہزار اساتذہ کو بھرتی کر کے اُنھیں تربیت فراہم کی جائے گی جب کہ ساٹھ لاکھ سے زائد نصابی کتب بھی فراہم کی جائیں گے۔
برطانیہ کے ہائی کمشنرایڈم تھامسن نے کہا کہ اُنھیں یقین ہے کہ اس امداد کے منصفافہ استعمال اور احتساب کے نظام کو بہتر بنایاجائے گاتاکہ برطانوی ٹیکس دہندگان کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ اُن کی امداد کا درست استعمال کیا جارہا ہے۔
ہائی کمشنر نے بتایا کہ پاکستان برطانیہ کی طرف سے امداد حاصل کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اگر مقامی حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے ، ٹیکس کے دائر کار کو وسیع کرنے اور انسداد بدعنوانی کے لیے اقدامات کیے تو 2015 ء تک پاکستان کے لیے سالانہ امداد کا حجم 44کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ یا 62 ارب روپے سالانہ تک ہوجائے گا۔
پاکستان میں صحت ، تعلیم اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں بہتری لانے کے لیے امریکہ کی طرف سے کیری لوگر برمن بل کے تحت بھی آئندہ پانچ سالوں کے دوران ساڑھے سات ارب ڈالرکی رقم فراہم کی جائے گی۔ اس امداد کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ ایک معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت ایسا نظام وضع کیا جارہا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی شخص امریکہ کی طرف سے ملنے والی امداد کے غیر موثر استعمال اور بدعنوان عناصر کی نشاندہی ٹیلی فون، فکیس اور ای میل کے ذریعے کر سکے گا۔
وزیراعظم گیلانی اور اُن کی حکومت میں شامل اہم وزرا ء بھی کہتے رہیں کہ حکومت بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور بین الاقوامی برادری امداد کے غلط استعمال کے خدشے کو جواز بنا کر پاکستان کے مدد نہ روکے ۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اُسے دہشت گردی اور اقتصادی مشکلات سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نکلنے کے لیے عالمی برداری اُس کی مدد کرے۔