سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن اور نیشنل انٹیلی جنس کے سابق ڈائرکٹر ڈینس بلیئر نے الگ الگ انٹرویوز میں کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے طالبان کے بعض گروپوں کو استعمال کیا جائے۔
ہیڈن 2006 سے 2009 تک سی آئی اے کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی یعنی آئی ایس آئی اپنے مقصد کے حصول کے لیے حقانی نیٹ ورک کو استعمال کر رہی ہے ۔’’یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکومتِ پاکستان، خاص طور سے پاکستان کی سیکورٹی کی تنظیم، یعنی فوج اور آئی ایس آئی کی نظر میں حقانی نیٹ ورک، جو شمالی وزیرستان میں طالبان کا گروپ ہے، پاکستان کا دوست ہے اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ یہ گروپ امریکہ کا دشمن ہے۔ اس نیٹ ورک کے بارے میں ہمارے خیالات میں جو اختلاف ہے، وہ ہمارے درمیان تعلقات کا سب سے پریشان کن پہلو ہے ۔‘‘
حقانی نیٹ ورک کو طالبان گروپوں میں سب سے زیادہ مہلک گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ گروپ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے سرحد پار کرتا ہے اور نیٹو کی فورسز پر حملے کر تا ہے ۔‘‘
نیشنل انٹیلی جنس کے سابق ڈائرکٹر ڈینس بلیئر کہتے ہیں کہ اس امید پر کہ امریکہ کو ایک نہ ایک روز افغانستان سے چلے جانا ہے، پاکستان دہرا کھیل کھیل رہا ہے ۔’’سچی بات یہ ہے کہ وہ دونوں طرف سے بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ تھی، اور اب بھی ہے کہ وہ امریکہ سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اٹھا لیں، اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں نہیں رہے گا، اور ہمیں خود اپنے مفادات کی بھی فکر کرنی چاہیئے، اور مختلف گروپوں سے رابطہ کرنا چاہیئے، یعنی دونوں ملکوں کے درمیان بھی تعلق قائم رہے اور ان بہت سے دہشت گر د گروپوں کے ساتھ بھی۔ اس کے علاوہ ان کی یہ روایت بھی ہے کہ وہ مختلف انتہا پسند گروپوں کو ایک دوسرے سے لڑواتے رہتے ہیں۔‘‘
پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی میں جو تعاون کیا ہے،ہیڈن اور بلیئر دونوں نے اس پر پاکستان کی کچھ تعریف بھی کی۔ ہیڈن کہتے ہیں کہ پاکستان انسدادِ دہشت گردی میں طاقتور شراکت دار رہا ہے، اور امریکہ نے القاعدہ کے سب سے زیادہ لوگ، پاکستان کی مدد سے ہی پکڑے ہیں۔ لیکن امریکہ پاکستان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ زیادہ جارحانہ انداز سے طالبان اور القاعدہ کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے۔
بلیئر کہتے ہیں کہ اسلام آباد کو اس میں تامل رہا ہے ۔’’پاکستان پر دہشت گردوں کے جتنے حملے ہوئے ہیں ، اتنے دنیا میں کسی اور ملک پر نہیں ہوئے۔ لیکن وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بہت سے گروپوں سے رابطہ قائم رکھ سکتےہیں، اپنے دوستوں کا انتخاب خود کر سکتے ہیں، اور دشمنوں کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اب تک مضبوطی سے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے، وہ چاہے کوئی بھی ہوں۔ پاکستان، بھارت، امریکہ، اور افغانستان،وہ جس کسی کے بھی خلاف ہوں، ہمیں ان کے خلاف کارروائی کرنی ہے ۔‘‘
پاکستان کی طرف سے، عہدے داروں کے بیانات میں ، قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں پر بغیر پائلٹ والے ڈرونز جہازوں کے حملوں، پاکستان کی سرزمین پر امریکہ کے انٹیلی جنس کے عملے کی موجودگی، اور حال ہی میں، اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے پاکستان کی سرزمین میں در اندازی پر، ناراضگی ظاہر کی جاتی رہی ہے ۔
امریکی ٹیم چوری چھپے رات کی تاریکی میں 2 مئی کو پاکستان میں داخل ہوئی اور اس نے ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں جو پاکستان کی ملٹری اکیڈمی سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا، اسامہ بن لادن کو ڈھونڈھ نکالا۔ امریکی ٹیم نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا اور پاکستانی فورسز کی طرف سے کسی مزاحمت کے بغیر افغانستان واپس آ گئی۔
ہیڈن جو امریکی ایئر فورس کے ریٹائرڈ جنرل ہیں، کہتے ہیں کہ بن لادن پر چھاپے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں بگاڑ جو کچھ عرصے سے جاری تھا، اور زیادہ نمایاں ہو گیا۔’’خاص طور سے ایبٹ آباد کے چھاپے سے تعلقات اور زیادہ متاثر ہوئے ۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اس واقعے سے، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر پڑا ہوا پردہ چاک ہو گیا۔ تعلقات میں ہمیشہ دشواریاں حائل رہی ہیں۔ وہ شعبے جن میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات ایک جیسے ہیں، اب کافی محدود ہو گئے ہیں۔‘‘
پاکستانی عہدے داروں اس بات پر مشتعل ہوئے کہ انہیں اس چھاپے کے بارے میں پہلے سے مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن بلیئر کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کا یہ فیصلہ کہ پاکستانیوں کو پہلے سے مطلع نہ کیا جائے، صحیح تھا کیوں کہ انہیں اندیشہ تھا کہ اس طرح یہ آپریشن خفیہ نہیں رہے گا۔’’بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ جب پاکستان کو کوئی بات پتہ چلتی ہے، تو وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ کیا وہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کر سکتا ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ صحیح تھا کہ اس بار امریکہ خود کارروائی کرے۔ پاکستان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیئے کہ بعض باتیں ایسی ہیں جن میں امریکہ چانس نہیں لے سکتا۔ یہ شخص جس نے اُس حملے کی قیادت کی تھی جس میں 3,000 امریکی ہلاک ہوئے، اسے ٹھکانے لگانے کا کام ہم کسی اور کے سپرد نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کام ہمیں خود ہی کرنا تھا۔‘‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بن لادن کا جا نشین، ایمن الظواہری، اور اس کے اہم پیرو کار، پاکستان کے قبائلی علاقے میں کہیں چھپے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی ملٹری اکیڈمی کے کامبیٹنگ ٹیررازم سنٹر کے ایک حالیہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلق اس سے کہیں زیادہ قریبی ہے جتنا ا ب تک سمجھا جاتا رہا ہے ۔