امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تجدید پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک اور خطے میں ترقی نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسایہ ملکوں کی خوشحالی اور امن واستحکام کے مفاد میں بھی ہے۔
پیر کو اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف ا سٹریٹیجک اسٹڈیز میں دانشوروں، طالب علموں، سابق سفارت کاروں اور صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہا کہ دو طرفہ تعلقات ماضی قریب میں بعض مشکلات کا شکار رہے ہیں اور ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے صورت حال کو مزید کشیدہ کر دیا۔ لیکن اُن کے بقول دونوں ملکوں میں دو طرفہ تعلقات کی اہمیت پر اس ایک افسوس ناک واقعہ کو اثرانداز نہ ہونے دینے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اپنی تقریر میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی اہمیت اور تعاون کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کودرپیش اہم مسائل کے باوجود وہ پاک امریکہ تعلقات کے بہتر اور روشن مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔
27 جنوری کو لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے جرم میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لیے نجی حیثیت میں کا م کرنے والے ڈیوس کی گرفتاری کا معاملہ پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کا باعث بنا ۔ اگرچہ مقتولین کے لواحقین کو دیت ادا کرنے کے بعد اس امریکی اہلکار کو رہا کرکے وطن واپس بھیج دیا گیا لیکن دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی بظاہر کم نہ ہو سکی اور اطلاعات کے مطابق سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون بھی تاحال تعطل کا شکار ہے۔
لاہور میں پیش آنے والے اس واقعہ کے بعدپیر کو پہلی مرتبہ امریکی سفیر نے میڈیا کے سامنے آکر پاکستان کے بارے میں اپنے ملک کی پالیسی کی وضاحت کی جس کا بظاہر مقصد دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کو کم کرنا تھا۔
کیمرون منٹر نے کہا کہ تعلیم، اقتصادی، سلامتی اورثقافتی شعبوں میں امریکہ نے پاکستان میں حالیہ برسوں میں جتنی بھی سرمایہ کاری کی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اُن کا ملک ایک مستحکم، خوشحال اور محفوظ پاکستان کا خواہاں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دو طرفہ تعاون کو بڑھانے اور اختلافات کو بات چیت کے ذریعے کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان ملاقاتوں کا ایک نیا سلسلہ جلد شروع ہونے والا ہے جن میں امریکہ پاکستانی ماہرین اور فوجی حکام کے تحفظات و تجاویز کو سننے کا منتظر ہے۔” مذاکرات کے اس سلسلے میں امریکہ چاہے گا کہ نا صرف سفارتی اموربلکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار بھی زیر بحث آئیں۔“
امریکی سفیر نے اس تاثر کو بے بنیاد قرار دے کر رد کیا کہ اُن کا ملک پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی طالب علمو ں اور اسکالرز کے لیے فل برائٹ پروگرام اس وقت دنیا میں سب سے بڑا منصوبہ بن چکا ہے جبکہ صحت، تعلیم ، سلامتی اور اقتصادی منصوبوں کے علاوہ گذشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب میں پاکستان کی ہنگامی بنیادوں پر کی جانے والی امداد کا مقصد ” پاکستان کو مضبوط اور پاکستانی عوام کی مددکرنا ہے نا کہ اسے کمزور کرنا “۔
بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات چاہتا ہے اور حال ہی میں کرکٹ عالمی کپ کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کا مل بیٹھنااس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملک اپنے دیرینہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
امریکی سفیر نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں بھی پاکستان کے کردار کی اہمیت کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن اُنھوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ امریکہ افغانستان سے واپس جار ہا ہے۔ ”افغانستان میں ہماری حکمت عملی تبدیل ہور رہی ہے ختم نہیں۔ہم اس خطے کے ساتھ تجارتی ، سیاسی اور دیگر شعبوں میں تعاون جاری رکھیں گے لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ 2014ء کے بعد امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا۔“
حاضرین میں موجود بعض افراد نے امریکی سفیر سے درخواست کی کہ وہ اپنے ملک کو پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا کہیں کیونکہ ”یہ کارروائیاں امریکہ مخالف جذبات کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں۔ “
منٹر نے ڈرون حملوں پر براہ راست کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے خدشات امریکی قیادت تک ضرور پہنچائیں گے۔ سوال وجواب کے دوران امریکہ پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزامات بھی لگائے گئے لیکن امریکی سفیر نے اس تنقید کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی یہ آزادی باہمی اختلافات کو دور کرنے میں مدد دے گی۔
کانگریس کے بعض اراکین کی طر ف سے پاکستان مخالف بیانات پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ جس طرح پاکستان میں منتخب نمائندے اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرتے ہیں اُسی طرح امریکہ میں بھی منتخب عوامی نمائندوں کو یہ حق حاصل ہے اور یہی جمہوریت اور آزاد معاشرے کی خصوصیات ہیں۔