پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات بدستور مشکلات کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک تقریباً دس سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی ہیں اور مبصرین کہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی اس جنگ کی کامیابی کے لیے پاکستان اور امریکہ کا اتحاد ضروری ہے۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے حال ہی میں واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے وڈرو ولسن سینٹر کے تحت
Pakistan Afghanistan – Conflict, Extremism and Resistance to Modernity
کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ کی ایک وجہ دونوں ملکوں کی ایک دوسرے سے وابستہ غیر حقیقت پسندانہ توقعات ہیں۔
http://www.youtube.com/embed/lDUJU23gCXY
ریاض محمد خان کا کہناہے کہ امریکی امداد سے زیادہ اہم بات دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی موجودگی ہےکیونکہ پاکستان خطے میں ایک بہت اہم ملک ہے۔ لہذا یہ تعلقات خطے کے امن کے لیے بہت ضروری ہیں۔
پاکستان نے دو مئی کو اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کمانڈوز کی بغیر اطلاع دیے کارروئی کے ردِعمل میں امریکی تربیت کاروں کو واپس بھیج دیا اور ملک کے اندر امریکی اور مبینہ طور پر سی آئی اے کے لیے کام کرنے والے پاکستانیوں کے خلاف کاروائیاں بھی کیں ہیں۔ جس کے بعد پاکستان کو امریکہ سے ملنے والی 80 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ ریاض محمد خان کے مطابق پاکستان کو غیر ملکی فوجی امداد ملے یا نہ ملے اسے اپنے ملک کے اندر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔
ریاض محمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان کو اپنا سرمایہ نہیں سمجھتا اورنہ ہی طالبان افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب طالبان نے افغانستان کے بہت سے حصوں پر حکومت کی ، اس وقت کسی کی بھی نظریں اس ملک پرنہیں تھیں۔اب حالات بدل چکے ہیں۔ ساری دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں ۔ اگر امریکہ کی افواج نہ بھی ہوں تب بھی طالبان کے لیے وہاں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔
ریاض محمد خان کے مطابق طالبان افغانستان کے سیاسی منظرنامے کا حصہ ہیں، اس لیے ان سے مفاہمت کی بات ہونی چاہیے۔ جس میں بنیادی کردار افغان حکومت کا ہے مگر امریکہ بھی فوجی موجودگی کی بنا پر اس معاملے کا ایک فریق ہے جبکہ مذاکرات میں جغرافیائی حقیقت کی وجہ سے پاکستان کا کردار بھی اہم ہے۔